Book Name:Karamat e AalaHazrat

صوفیا ء کے نزدیک اصل چیز یہی ہے کیونکہ استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کرامت میں نفس کا سُرورہے اور استقامت میں نفس کو کمزور کرناہے اور یہ بہت ہی اہم ہے۔ اسی واقعہ کو لے لیجیے کہ جب سید صاحب  پانی کی دھار کو موٹی کر کے اس لیے  بہاتے ہیں کہ حضرت نے اپنا  لعابِ دہن لگاتے ہوئے سانپ کے کاٹے ہوئے  مقام  پر ہاتھ لگایا ہے کہیں سانپ کا زہر نہ لگ  گیا ہواو رحضرت کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگریہ شریعت پر استقامت  کے ساتھ عمل کرنے والے مجدّدِملت اسے اِسراف کہہ کر پانی کی دھار کو چھوٹی رکھنے کا حکم ارشاد فرماتے ہیں ۔

اور آپ کی شریعت پر استقامت دیکھیےکہ نمازوں کا اہتمام اس قدر فرماتے تھے کہ وقت سے پہلے ہی مسجد تشریف لے جاتےہیں ۔ عشقِ رسول کیسا تھا کہ حضور سیدِ عالم  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے جو دعائیں ارشاد فرمائیں وہ یاد تھیں اور اس پر یقین ایسا تھاکہ فرمایا !جائیے اطمینان سے سوجائیے اور صبح خیریت سے آگاہ کیجیے گا ، نماز کے بعد وظائف کا اہتمام کرنے والے ، ایک مسلمان کے درد کواپنا درد سمجھنے والے ، سیدزادوں کا ادب کرنے والے اور شریعت کے معاملے میں انتہائی محتاط  تھے ۔ جب کوئی  ایسا شریعت کا لحاظ رکھنےوالاہواورنفل عبادات پراس کی استقامت ہوتواللہ پاک اسے اپنا قُرب عطافرمادیتاہے اور جسے یہ دولت مل جائے تو پھر  کیاہوتاہے ، سُنیے!حدیثِ قُدسی ہے۔

بخاری شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ حضورِاکرم ، سرکارِدوعالم ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نےارشادفرمایا : “ کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی سے بڑھ کرکسی اور چیزسے میراتقرب حاصل نہیں کرسکتا(فرائض کے بعدپھروہ)نوافل