Book Name:Karamat e AalaHazrat

صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے پاؤں مبارک پر اپنا لعاب ِدہن لگایا تھا ۔ اگر آپ لعابِ دہن لگا دیں گے  تو میرا دل مطمئن ہوجائے گا ۔ یہ سن کرآپ  نےتھوڑا سا ناراضی کا اظہار کیا جس پر قناعت علی  بھی مایوسی کے انداز میں  خاموش ہوگئے ۔ فرمایا تم نہیں مانتے ہو ، اچھا لاؤ پاؤں ۔ میں نے بڑھ کر لعاب ِدہن لینے کے لیے اپنا سیدھا ہاتھ پھیلا دیا ، مگرسَیِّدی اعلیٰ حضرت  نے میرے ہاتھ کو ہٹا کر خود اپنے ہاتھ سے لعابِ دہن لگاتے ہوئے فرمایا : بس اب تو آپ کا کہنا ہوگیا ۔

قناعت علی نے کہا حضور !مسجد کی چاردیواری کے باہر چل  کر ہاتھ دھولیں ، فرمایا اچھا چلیےقناعت علی پورا لوٹا بھر کرخودلائے اورتیزی کے ساتھ موٹی دھار سے پانی ڈالنا شروع کردیا حضور بار بار منع فرمارہے تھے ، بس کیجیے اِسراف ہے مگر انہوں نے جب تک لوٹے کاپانی ختم نہ کرلیا باز نہ آئے۔ اس کے بعد نماز ہوئی اورسَیِّدی اعلیٰ حضرت وظائف سے فارغ ہوکر جب تشریف لے جانے لگے تو میں نے اپنی حماقت سے عرض کیا : حضور ! میں نے سنا ہے کہ سانپ کے کاٹے ہوئے کو سونے نہ دیا جائے۔ یہ سنتے ہی ٹھہر گئے اور فرمایا : جب کاٹا بھی ہو۔ چوہے نے کاٹا ہوگا سانپ پر نظر پڑ گئی ۔ قناعت علی سے فرمایا آپ بالکل اطمینان  سے آرام فرمائیے اور صبح کوخیریت بھیجئے ۔

مختصر یہ کہ انہوں نے رات بھر خواب دیکھے کہ میں سانپ مار رہا ہوں ، کیوں  کہ جس سانپ نے کاٹا تھا اسے قناعت نے ہی  مارا تھا ۔ صبح ان کی آنکھ فجر کے وقت سے پہلے ہی کھل گئی ، اوریہ خیال  کرتے ہوئے کہ حضور کو فکر ہوگی تین چاربجے ہی مسجد میں پہنچ گئے اورسَیِّدی اعلیٰ حضرت  کا انتظار کرتے رہے ، یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے