Book Name:Safai Ki Ahammiyyat

۱/۳۳،حدیث۵۲)

حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی دل بادشاہ ہے جسم اِس کی رِعایا،جیسے بادشاہ کے دُرُست ہوجانے سے تمام مُلْک ٹھیک ہوجاتا ہے،ایسے ہی دل سنبھل جانے سے تمام جسم ٹھیک ہوجاتا ہے،دل اِرادہ کرتا ہے جسم اس پر عَمَل کی کوشش (کرتا ہے)، اس لیے صوفیائے کرام(رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن)دل کی اِصلاح پر بہت زور دیتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح،۴/۲۳٠ ملتقطاً)

کپڑے میں رکھوں صاف تُو دل کو مرے کر صاف       اللہ مدینہ مرے سینے کو بنا دے

(وسائلِ بخشش مرمَّم،ص ۱۱۷)

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  لکھتے ہیں:ظاہری اَعمال کا باطنی اَوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اَعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حَسَد، رِیاکاری اور تکبُّر وغیرہ عیبوں سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی دُرُست ہوتے ہیں۔(منھاج العابدین،الباب الاول ،العقبة الاولی ، ص ۱۳،ملخصًا)باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا دل کی اِصلاح بہت ضروری ہے۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:جس کی حفاظت اور نگرانی بہت ضروری ہے وہ دل ہے، کیونکہ یہ تمام جسم کی اصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر تیرا دل خراب ہو جائے تو تمام اعضاء خراب ہوجائیں گے اور اگر تُو اس کی اصلاح کرلے تو باقی سب اعضاء کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی۔ کیونکہ دل درخت کے تنے کی طرح ہے اور باقی اعضاء شاخوں کی طرح، اور شاخوں کی درستی یا خرابی درخت کے تنے پر موقوف ہے۔ تو اگر تیری آنکھ،زبان، پیٹ وغیرہ درست ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرا دل درست ہے اور اگر یہ تمام اعضاء گناہوں کی طرف راغب ہوں تو سمجھ لے