Book Name:Islam Aik Zabita-e-Hayat He

دَین،حرام خوری،جھوٹی قَسمیں کھانے اور مصنوعی مہنگائی کرنے سمیت سینکڑوں اقسام کی بُرائیوں کا مجموعہ بن چکی ہے۔غالباًیہ اسلامی تعلیمات اور تجارت کے بنیادی مسائل  سے منہ پھیرنے کا ہی نتیجہ ہے۔تجارتی لین دَین کے حوالے سے صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کا زمانہ انتہائی شاندار تھا کیونکہ ان کے زمانَۂ مبارک میں صرف اسی تاجر کو بازار میں آنے کی اجازت ہوتی تھی جو عالِم ہو اور سُود کے گناہ سے بچتا ہو،چنانچہ

امیرُالمؤمنین حضرت سَیِّدُنا فاروقِ اعظمرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرمایا کرتے تھے:”ہمارے بازار میں وہی شخص آئے جو دِین میں فقیہ یعنی عالِم ہو،اگرایسا نہ ہوا تو وہ سُود کھانے میں مُبْتَلا ہوجائے گا۔“

(تفسیرقرطبی،پ۳ البقرۃ، تحت الایۃ:۲۷۵،الجزء الثالث،۲/۲۶۷)

اسی طرح زمانَۂ صحابہ کے بعد آنے والے بزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی زندگی بھی بالخصوص تاجر برادری کے لئے مشعلِ راہ ہے کیونکہ یہ حضرات جہاں اعلیٰ درجے کے عابد  وزاہد تھے وہیں مَدَنی ذہن رکھنے والےسچے و امانت دار تاجر بھی تھے،جن کی تجارت مکمل طور پراسلامی اُصول و قوانین کے سانچے میں ڈھلی ہوئی اور لالچ کی بدبُو سے پاک تھی۔

آئیے! ترغیب کے لئے ایک ایمان افروز واقعہ سنئے،چنانچہ

ایک بزرگ کا اَندازِ تجارت

ایک بُزرگرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کےبارے میں منقول ہے:وہ’’واسط‘‘کے مقام پر تھے،انہوں نے گندم سے بھری ایک کشتی بصرہ شہرکی طرف بھیجی اور اپنے وکیل کو لکھا:جس دن یہ کھانا بصرہ پہنچے اُسی دن اسے بیچ دینا اور اگلے دن تک روکے نہ رکھنا۔اتفاقاً وہاں بھاؤ(Rate)کم تھا تو تاجروں نے ان کے وکیل کو مشورہ دیاکہ اگر آپ  اسے جمعہ کے دن تک روکے رکھیں تو اس میں ڈبل فائدہ ہوگا۔چنانچہ اس  نے جمعہ تک کے لئے فروخت نہ کیا تو اس میں بہت زیادہ  فائدہ ہوا۔وکیل نے یہ واقعہ مالک کو لکھ