Book Name:Narmi Kaisy Paida Karain

عالِم  بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کردار سے مُتَأثِّر ہوئے بغیر نہ  رہ سکا اور کلمہ پڑھ کردائرہ اسلام میں داخل ہوگیا،لہٰذا نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری سیرت پرعمل کرتےہوئے اپنے اندر نرمی  جیسی پیاری  عادت(Habit)پیدا کرنے کی کوشش کیجئے، دوسری اسلامی بہنوں کی غلطیوں  پر اُنہیں معاف کرنا سیکھئے، کوئی کتنا ہی غصّہ دِلائے ہمیشہ اپنی زبان کو قابو میں رکھئےکہ اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے ۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ  عَلٰی مُحَمّد

پیاری پیاری اسلامی بہنو! نرمی کی کتنی اَہَمِّیَّت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایئےکہ جب اللہ کریم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو فرعون کی طرف بھیجا کہ اسے ایمان کی دعوت دیں تو اللہ پاک نے اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،چنانچہ

پارہ 16سُوْرَۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 44 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴)  (پ۱۶،طہ:۴۴)                              

ترجمۂ کنزُالعِرفان: توتم اُس سے نرم بات کہنا اِس اُمید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈرجائے۔

       بیان کردہ آیتِ مبارَکہ کے تحت تفسیرِ خازن میں لکھا ہے:یعنی جب تم فرعون کے پاس جاؤ تو اُسے نرمی کے ساتھ نصیحت فرمانا۔بعض مُفَسِّرِیْن(رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن)کے نزدیک فرعون کے ساتھ نرمی کا حکم اس لئے تھا کہ اس نے بچپن میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی خدمت کی تھی اور بعض مُفَسِّرِیْن(رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن)نے فرمایا:نرمی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سےوعدہ کریں کہ اگر وہ ایمان قبول کرے گا تو تمام عمر جوان رہے گا،کبھی بڑھاپا نہ آئے گا ، مرتے دم تک اُس کی بادشاہت باقی رہے گی ، کھانے پینے کی لذّتیں مرنے تک  باقی رہیں گی ا ور مرنے کے بعد جنت میں داخلہ بھی نصیب ہو