Book Name:Narmi Kaisy Paida Karain

ہے۔فی زمانہ ہمارے معاشرےمیں غصّےکی حالت یا مذاق کرتے وَقْت کسی کا مذاق اُڑانا ،سب کے سامنے شرمندہ کرنا،اس پر تنقید کے تِیر برسانا اوراس کی  باتوں پر قَہْقَہَہ لگانا بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ جس کا مذاق اُڑایا جاتاہے بسا اوقات وہ بھی مذاق اُڑانے والوں کےساتھ قَہْقَہَہ مارکرہنس رہا ہوتا ہے ۔ایسےمیں شیطان یوں مطمئن کردیتا ہےکہ اس ہنسی مذاق سے یہ بھی خوش ہورہا ہےحالانکہ وہ بیچارہ خوش نہیں ہوتا  بلکہ ہوسکتا ہے اپنی شرم مٹانے کیلئے ہنستا ہو اور اندر ہی  اندر اس کے دل کے ٹکڑے  ہو رہے ہوں۔لہٰذا ہمیں  ہر اس کام سےبچناچاہیے،جس سے کسی مسلمان کا دل دُکھتا ہے اور اگر کوئی ہمارے لئے بھی  سخت الفاظ استعمال کرے تو فوراً غصے میں آگ بگولا ہونے کے بجائے نرمی اختیار کرتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔آئیے!اس بارے  میں ایک واقعہ سنئے،چُنانچِہ

میٹھے بول کی حکایت

خُراسان کے ایک بُزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو خواب میں حکم ہوا:تا تا ری قوم میں اسلام کی دعوت پیش کرو!اُس وَقت ہلاکُو کابیٹا تگودار اِقتِدار میں تھا۔وہ بُزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سفر کرکے تگودار کے پاس تشریف لے آئے۔سُنّتوں کے پیکر چہرے پر داڑھی سجائے مسلمان مُبَلِّغ کو دیکھ کراُسے مذاق سُوجھا اور کہنے لگا:میاں !یہ تو بتا ؤ تمہاری داڑھی کے با ل اچّھے یا میرے کُتّے کی دُم؟بات اگرچِہ غصّہ دلانے والی تھی مگرچونکہ وہ ایک سمجھدار مُبلِّغ تھے ،لہٰذا نہایت نرمی کے ساتھ فرمانے لگے:میں بھی اپنے ربِّ کریم کاکتّا ہوں، اگر وفاداری سے اسے خوش کرنے میں کامیاب ہوجاؤں تو میں اچّھا ورنہ آپ کے کُتّے کی دُم ہی مجھ سے اچّھی۔ چُونکہ وہ ایک باعمل مُبَلِّغ تھے، غیبت وچُغلی،عیب کھولنے،بُرا کلام کرنےاورفُضول گفتگو وغیرہ سے دُور رہتے ہوئے اپنی زَبان ذِکرُاللہ سے ہمیشہ تَر رکھتے تھے،لہٰذا ان