Book Name:Aala Hazrat Ka Ilm-o-Amal

اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہجس قَدَر اِطمینان ، سُکون اور مَسائل کی رِعایت سے نماز پڑھتے تھے اِس کی مِثال ملنی مشکل ہے۔ ہمیشہ میری دو رَکعت ہوتی تو ان کی ایک،جبکہ میری چار رَکعت دوسرے لوگوں کی6 اور8 رَکعتوں کے برابر ہوتی اور نماز سے اِس قدر شوق فرماتے اور جماعت کا اِتنا خیال کرتے کہ بسااَوقات مَرض کی وجہ سے اُٹھنا بیٹھنا،چلنا پھرنا نِہایت دُشوار ہو جاتا مگر جب نماز کا وقت آتا تو بغیر کسی سَہارے (Support)کے خود ہی مسجد تشریف لے جاتے اور معلوم ہوتا کہ پورے طور پر صِحت یاب ہیں۔ (انوارِ رضا ،ص ۲۵۸)

       ایک دفعہ جب شدید بیمار ہوگئے، طبیعت اتنی خراب ہوگئی کہ وصیّت نامہ بھی آپ نے لکھوا دیا، تب بھی نماز سے محبت کا حال یہ تھا کہ چار آدمی کرسی(Chair) پر بٹھا کر مسجد لے جاتے اور پھر لاتے، مگر نمازیں ساری مسجد میں ہی پڑھتے تھے۔ (فتاویٰ رضویہ،۹/۵۴۷)

گھسٹتے ہوئے جماعت کے لئے حاضر ہوئے

اِسی بیماری میں”ایک بار مسجد لے جانے والا کوئی نہ تھا، جماعت کا وقت ہو گیا۔ طبیعت پریشان، ناچار خود ہی کسی طرح گِھسَٹتے ہوئے حاضر ہوئے اور باجماعت نماز ادا کی۔(عورتیں اور مزارات کی حاضری،ص ۱۸)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!سُنا آپ نے!اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  کو نمازِ باجماعت سے کیسی مَحَبَّت تھی کہ کسی حال میں جماعت چھوڑنا گوارا نہ تھا،نمازِ باجماعت سےآپ کی مَحَبَّت کا عالم تو دیکھئے کہ    شدید  بیماری  کے سبب چلنے میں دُشواری ہے، لیکن پھر بھی مسجد میں جا کر نمازِ باجماعت اداکرنا،اِن کاخاصہ تھا، اس میں اُن نادانوں کے لئے عبرت کے مدنی پھول موجود ہیں جو نماز کے اوقات میں  گلی کے