Book Name:Jahannam Ki Sazaaen

عذابات کو یاد کر کے رونا اور آہ و زاری کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔ آئیے! اسی بارے میں دو (2)روایتیں سنتے ہیں۔

(1)سانس اُکھڑ گئی

       حضرت سیِّدُنا حسن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہسے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نےان آیات کی تلاوت کی:

اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷) مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸) (پ۲۷،الطور:۷۔۸) 

ترجمۂ کنزالایمان:بیشک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہےاسے کوئی ٹالنے والا نہیں  ۔

یہ پڑھ کر آپ پر ایسی رقّت طاری ہوئی کہ آپ کی سانس ہی اُکھڑ گئی اوریہ کیفیت کم وبیش 20 روز تک طاری رہی۔(فضائل القرآن لابی عبید،باب ما یستحب ۔۔۔الخ،ص۱۳۷)

(2)فرمانِ الٰہی کے سبب گریہ و زاری

       حضرت سیِّدُنا جعفر بن سلیمان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ  سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُنا  عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ایک عیسائی راہب کے گرجے کے قریب سے گزرے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے اسے یوں   بلایا: ’’اے راہب! اے راہب!‘‘اتنے میں   راہب باہر آگیا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اسے دیکھ کر زاروقطار رونے لگے۔ پوچھا گیا: ’’یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ مَا یُبْكِيْكَ مَنْ ھٰذَا ؟ یعنی حضور! آپ کو کس چیز نے رلایا اور یہ کون ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ذَكَرْتُ قَوْلَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ فِیْ كِتَابِہٖ فَذَلِكَ الَّذِیْ اَبْكَانِیْ یعنی قرآن پاک میں   مجھےاللہ پاک کا وہ فرمان یاد آگیا ہے (جس میں جہنمیوں کے عذاب کا بیان ہے) اسی نے مجھے رُلا دیا ہے۔  (مستدرک حاکم ، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الغاشیۃ، ۳ /۳۶۸، حدیث:۳۹۸۰)