Book Name:Sachi Tauba Shab-e-Braat 1440

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

       پىارے پىارے اسلامى بھائىو! یہ بزرگ حضرت سَیِّدُنا خواجہ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ تھے ، منقول ہے کہ ابتدا میں آپ ہیروں جواہرات کی تجارت کرتے تھے مگر یہی واقعہ آپ کی دنیا سے بے رغبتی کا سبب بنا اور اس کے بعد آپ نے ایسی عبادت و ریاضت کی کہ وقت کے تمام اولیا پر سبقت حاصل کر گئے۔ (تذکرۃ الاولیا ، ص۳۴ و ۳۶)

موت آ کر ہی رہے گی یاد رکھ

      پىارے پىارے اسلامى بھائىو!اس حکایت سے یہ مدنی پھول حاصل ہوا کہ موت سے فرار ممکن نہیں ہے ، موت بَر حق ہے ، موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اِنکار مُمکن نہیں۔ یقیناً ہروہ ذِی رُوْح کہ جس نےزِنْدگی کا جام پی لیا ہے ، اس نے موت کا پیالہ بھی پینا ہے۔ اَمیر ہو یا غریب ، بادشاہ ہو یا وزیر ، چوکیدار ہو یا دُکاندار ، پروفیسر ہو یا اَن پڑھ ، عالِم ہو یاغیرِ عالِم ، پیر ہو یا فقیر  ، مُسلم ہویا غیرمُسلم ، جس بھی حیثیَّت کا حامِل کوئی انسان ہے ، اسے ضَرورموت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم دُنیا کے کسی بھی گوشے میں پہنچ جائیں اور موت سے بچنے کیلئے جتنے بھی جَتَن کر لیں لیکن موت سے ہر گزپیچھا نہیں چُھڑا سکتے۔ قرآنِ پاک میں یہی مضمون کئی مَقامات پربیان ہوا ہے۔ چُنانچہ پارہ 4آلِ عمران کی آیت نمبر 185میں اِرْشاد ہوتا ہے۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ- (پ ۴ ،  آلِ عمران :  ۱۸۵)

تَرْجَمَۂ کنز الایمان : ہر جان کو موت چکھنی ہے۔

       حکیمُ الاُمَّت ، مُفْتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس آیتِ مُبارَکہ کے تَحت  فرماتے ہیں : اِنسان ہوں یا جنّ یا فِرِشْتہ ، اللہ پاک کے سِوا ہر ایک کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے۔ ( نور ُالعرفان ، ص۱۱۷)