Book Name:Esal-e-Sawab Ki Barakaten

ارشاد فرمایا:میت قبر میں  ڈوبتے ہوئے فریادی کی طرح ہی ہوتی ہے جو ماں،باپ،بھائی یا دوست کی دعائے خیرپہنچنے کےانتظار میں رہتی ہے،پھر دعا اسےپہنچ جاتی ہے تو اسے یہ دعا دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے زیادہ پیاری ہوتی ہے،اللہ پاک زمین والوں  کی دعا سے قبر والوں  کو پہاڑوں  کے جیسا ثواب دیتا ہےاور یقیناً زندہ کا مُردوں کے لیے تحفہ ان کے لیے” دعائے مغفرت“ہے۔(شعب الایمان، الرابع والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی زیارۃ القبور، ۷/۱۶،حدیث: ۹۲۹۵)

حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہ حدیثِ پاک   کےاس جملےمیت قبر میں ڈُوبتے ہوئے فریادی کی طرح ہوتی ہے“کی شرح میں فرماتے ہیں:عام گنہگار مسلمان تو اپنے گناہوں کی وجہ سے،خاص نیک مسلمان اسی پشیمانی(یعنی شرمندگی)کی وجہ سے کہ ہم نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہ کرلیں،مخصوص محبوبین(اللہ پاک کےخاص پسندیدہ بندے)اپنے چُھوٹے ہوئے پیاروں کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں۔تازہ مَیِّت بَرْزَخ(یعنی مرنے کے بعد سے لے کر قِیامت میں اُٹھنے تک کے وقفے) میں ایسی ہوتی ہے جیسے نئی دُلہن سُسرال میں کہ اگرچہ وہاں اسے ہر طرح کا عیش و آرام ہوتا ہے مگر اس کا دل میکے میں پڑا رہتا ہے،جب کوئی سوغات یا کوئی آدمی میکے سے پہنچتا ہے تو اس کی خوشی کی حد نہیں رہتی،پھر دل لگتے لگتے لگ جاتا ہے۔ظاہر یہ ہے کہ یہاں مَیِّت سے تازہ مَیِّت مراد ہے کہ اسے زندوں کے تحفے کا بہت انتظار رہتا ہے،اسی لیے نئی مَیِّت کو جلد از جلد نیاز،تِیجا،دسواں،چالیسواں وغیرہ سے یادکرتے ہیں۔زندوں کو چاہئے کہ مُردوں کو اپنی دعاؤں وغیرہ میں یاد رکھیں تاکہ کل انہیں دوسرے مسلمان یاد کریں۔(مراۃ المناجیح،۳/۳۷۳ تا ۳۷۴ملخصاً)

          اےعاشقانِ رسول!زندہ لوگوں کا ثواب پہنچانا فوت شُدہ مسلمانوں کو تحائف کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔آئیے!اس تعلق سےایمان افروز حکایت سنئے: