Book Name:Aulad Ki Tarbiyat Aur Walidain Ki Zimadariyan

بھرمار ہے اور اولاد کو صرف دُنیوی تعلیم سے آراستہ کرنے کا رُجحان زور پكڑتا جارہا ہے ،جبکہ پہلے کے دَور میں اولاد کے لئے دِینی تعلیم کوزیادہ حَیْثِیَّت دی جاتی تھی،شاید یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں والدین کے ساتھ ساتھ ان کی اولاد بھی پرہیزگار اورفرمانبردارہوتی تھی مگر اب دنیوی تعلیم کو ترجیح دی جانے لگی ہے، یہی وجہ ہےکہ اسکولوں میں بھاری فیسوں کی ادائیگی اورہرآسائش وسہولیات کی فَراہمیاس لیے کی جاتی ہے کہ بچوں کادُنیوی مستقبل روشن ہوجائے ،اچھی نوکری(Job) لگ جائے،خوب بینک بیلنس جمع ہوجائے حتّٰی کہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے والدین اپنی اولادکوبیرونِ ملک پڑھنے کیلئےبھی  بھیج دیتے ہیں۔یوں دُنیوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچہ پکا دنیا دار،اچھا بزنس مین اور ماڈرن تو بن جاتاہے مگر نیک،عاشقِ رسول اور باعمل مسلمان نہیں بن پاتا۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

اے عاشقانِ رسول!عموماً ہر والدین کی یہ دِلی خواہش ہوتی ہے کہ’’ہماری اولاد ہماری فرمانبردار رہے،ہمارے ساتھ اچھا سُلوک کرے،نیک،پرہیزگاربنے، مُعاشرےمیں عزّت داراور پاکیزہ کرداروالی ہو“مگراکثر نتیجہ اس کے اُلٹ ہی آتا ہے۔کیوں؟اس لئے کہ جو ماں باپ تربیتِ اولاد کے بنیادی اسلامی اُصولوں سے ہی لاعِلْم،بے عمل اور اچھے ماحول کی برکتوں سے محروم ہوں تو بھلا وہ کیونکر اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرپائیں گے؟۔شاید اسی وجہ سے آج اولاد کی تربیت کا معیار یہ بن چکا ہے کہ بچہ اگر کام کاج نہ کرے،اسکول،کوچنگ سینٹر،ٹیوشن یا اکیڈمی سے چھٹی کرلے یااس معاملے میں سُستی کا شکار ہو،کسی تقریب میں جانے کا یا مخصوص لباس و جوتے پہننے کا کہا جائے اور وہ اس پر راضی نہ ہو،اسی طرح دیگر دنیوی معاملات میں وہ”اگر مگر“ اور” چونکہ چنانچہ“سے کام لے یا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو اس کاٹھیک ٹھاک نوٹس لیا جاتا ہے،کھری کھری سُنائی جاتی ہے،گھنٹوں