Book Name:Sadqy Kay Fwaeed

کی:اس میں سے کچھ تو تناو ُل فرما لیجئے ، تھوڑے سے تو چکھ لیجئے۔فرمایا: نہیں، یہ اسے دے دو۔تو میں نے وہ سائل کو دے دیئے ۔

            پھر میں نے سائل سے وہ انگور ایک درہم کے بدلے خریدلئے اورآپ رَضِیَ اللہ عَنْہکی خدمت میں لے آیا۔ ابھی ہاتھ میں رکھے ہی تھے کہ وہ سائل پھر آ گیا۔ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ نے فرمایا: یہ اسے دے دو۔ میں نے عرض کی: آپ اس میں سے کچھ تو چکھ لیجئے۔فرمایا: نہیں، یہ اسے دے دو۔میں نے وہ خوشہ اسے دے دیا۔وہ سائل اسی طرح لوٹ کر آتا رہا اور آپ رَضِیَ اللہ عَنْہاسے انگور دینے کا حکم فرماتے رہے۔ بالآخر تیسری یا چوتھی بار مَیں نے اس سے کہا :تیرا ناس ہو! تجھے شرم نہیں آتی؟پھر میں اس سے ایک درہم کے عوض انگوروں کا وہ خوشہ خرید کر آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکے پاس لایاتو آپ رَضِیَ اللہ عَنْہنے اسے تناو ُل فرمالیا ۔ (اللہ والوں کی باتیں، ۱/۵۲۳)

پسندیدہ اونٹ صدقہ کر دیئے!

ایک بار حضرت سیِّدُناابوذَرغِفَاری رَضِیَ اللہ عَنْہ نے فرمایا:مال  میں تین  حصے دار ہوتے ہیں: (۱)تقدیر ، یہ وہ حصے دار ہے جسے بھلائی اور برائی (یعنی مال یاتجھے ہلاک کرنے)میں تیری اجازت کی حاجت نہیں۔ (۲)دوسرا حصے دارتیرا وارث،اسے اس بات کا انتظار ہے کہ تو مرے اور یہ تیرے مال پر قبضہ کرلے اور (۳)تیسرا  حصے دار تُوخودہے ۔ یقیناًتم ان دونوں حصے داروں کو عاجز نہیں کرسکتے لہٰذا اپنامال راہِ خدامیں خرچ کردو۔        بے شک اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ (پ۴،اٰلِ عمران:۹۲)

تَرْجَمَۂ کنز الایمان:تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خَرچ کرو