Book Name:Sadqy Kay Fwaeed

ہوا تو مجھے حضرت سیِّدُنا عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کے ایک پڑوسی (Neighbour)نے بتایاکہ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کے پاس حضرت سیِّدُنا امیرِ مُعَاوِیَہ رَضِیَ اللہ عَنْہکی طرف سےچار ہزار درہم آئے ہیں اور ایک دوسرے آدمی کی طرف سے بھی اتنے ہی درہم آئے ہیں اور ایک شخص نے 2 ہزاردرہم اور ایک عمدہ چادر حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی خدمت میں بھیجی ہے۔ حضرت ایوب بن وائل کہتےہیں: میں نے دیکھا کہ  حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ عَنْہُمَا بازار میں تشریف لائے اور کھوٹے دِرہم کے بدلے میں اپنی سواری کے لئے چارا خریدا۔ میں نے انہیں پہچان لیاپھر میں نے ان کی اَہلیہ کے پاس آکر کہا کہ’’میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ آپ مجھ سے سچ بیان کریں۔‘‘ میں نے پوچھا : ’’کیا ابوعبدالرحمٰن رَضِیَ اللہ عَنْہکے پاس حضرت سیِّدُنا امیرِمُعَاوِیَہ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی طرف سے 4 ہزار درہم،ایک دوسرے آدمی کی طرف سے 4 ہزار درہم اور ایک شخص کے پاس سے 2 ہزار درہم اور ایک چادر نہیں آئی تھی؟‘‘ جواب ملا:’’ کیوں نہیں! یقیناً یہ سب کچھ آیا تھا۔‘‘ میں نے کہا کہ’’میں نے تو انہیں کھوٹے درہم کے عوض چارا خریدتے دیکھا ہے۔‘‘ تو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ ’’انہوں نے تووہ سب مال رات ہی کو لوگوں میں تقسیم کر دیاتھااور چادر اپنے کندھے پر ڈال کر چل دئیے اوراسے واپس لوٹاکرگھرآگئے۔‘‘(حلیۃ الاولیاء، ۱/۳۶۸،۱۰۲۱ )

ایک لاکھ درہم صدقہ کر دیئے!

حضرت سیِّدُنا محمد بن سُوقہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  تابعین میں سے تھے، بڑے نیک اور خوفِ خدا کے پیکر تھے۔ ایک بار انہوں نے  اپنے پاس جمع شدہ مال کو شمار (Count)کیا تو وہ ایک لاکھ درہم تھے، پھر فرمانے لگے:میں نے ایسی کوئی بھلائی جمع نہیں کی جسے میں باقی رکھوں تو وہ بڑھتی رہے اور میں اس کے لئے بڑھتا