Book Name:Ambiya-e-Kiraam Ki Naiki Ki Dawat

ساتھ اسے نیکی کی دعوت پیش کرتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی اِنفِرادی کوشش نے تگودار کے دل میں مَدَنی انقِلاب بر پا کردیا! وُہی تگودار جو کل تک اسلام کو صَفْحَہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھا آج اسلام کا شیدائی بن چکا تھا۔اسی باعمل مبلِّغ کے ہاتھوں تگودار اپنی پوری تاتاری قوم سمیت مسلمان ہوگیا۔ اس کا اسلامی نام احمد رکھا گیا۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص۱۵۴بتغیرقلیل)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مُبَلِّغَہ کو کیسا ہونا چاہئے :

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! یقیناً اگر تگودار کے تیکھے جملے پروہ بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ غصّے میں آجاتے تو ہر گز یہ مَدَنی نتائج برآمدنہ ہوتے۔ لہٰذا کوئی کتنا ہی غصّہ دلائے ہمیں اپنی زَبان کو قابو میں ہی رکھنا چاہیے کہ زبان جب بے قابو ہوجاتی ہے تو بعض اوقات بنے بنائے کھیل بھی بگاڑ کررکھ دیتی ہے۔

ایک مدنی پھول اس حکایت سے یہ بھی ملا کہ نیکی کی دعوت دیتے ہوئے بسا اوقات تلخ لہجوں، کڑوے جملوں، تیوری چڑھائے چہروں اور نیکی کی دعوت سے بے اعتنائی کر نے والوں سےبھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے، دل بڑا کرنا چاہیے، ہمت اور حوصلے سے کام لینا چاہیے اور اس عظیم کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ نیکی کی دعوت  دینے پر ہی توجہ رکھنی چاہیے۔ یاد رکھئے! نیکی کی دعوت دینا ایسا بہترین کام ہے جس میں ناکامی کی کوئی وجہ تو ہو ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ اچّھی نیّت کی صورت میں نیکی کی دعوت دینے والی ثوابِ آخِرت  کی حقدار توہو ہی جاتی ہے۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابو حامد محمدبن محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ نَقل فرماتے ہیں:کسی بُزُرگ نے اپنے فرزند کو نصیحت کا مَدَنی پھول عنایت کرتے ہوئے فرمایا:”نیکی کی دعوت“دینے