Book Name:Ambiya-e-Kiraam Ki Naiki Ki Dawat

والے کو چاہیے کہ اپنے آپ کو صَبْر کا عادی بنائے اور اللہ  پاک کی طرف سے نیکی کی دعوت کے ملنے والے ثواب پر یقین رکھے۔جس کو ثواب کا کامِل یقین ہو اُس کو اِس مبارَک کام میں تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔(اِحیاءُ العُلوم ج۲ ص ۴۱۰)لوگوں کی ایذاء کی وجہ سے تبلیغ سے کنارہ کشی نہیں کرنی چاہیے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے تکالیف برداشت کرنے کے باوجود ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ فرمائی۔تبلیغِ دین کیلئے جرأت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، بُزدل اور ڈرپوک شخص تبلیغ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔(صراط الجنان ،۴/۳۵۸)نیکی کی دعوت دینے کا معاملہ ہو یا بُرائی سے منع کرنے کا ہر صورت نرمی کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ نرمی کے جو فوائد ہیں وہ سختی سے ہر گز حاصل نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح یہ بات بھی ذہن نشین رکھئے کہ مُبَلغہ کو ہر جگہ مُبَلغہ ہی ہونا چاہیے، اسے ہر وَقت ہر جگہ اپنا انداز سنّتوں بھرا رکھنا چاہیے، اور موقع محل کی مناسبت سے نیکی کی دعوت دینے میں شرم بھی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک مُبلغہ کو کن اوصاف سے متصف ہونا چاہیے، آئیے ان میں سے کچھ سنتی ہیں:٭مُبلغہ ارکانِ اسلام  کی پابند اورسُنَّتِ رسُول کی حقيقی آئینہ دارہو، کیونکہ زیورِعلم کے ساتھ عمل کی قوت دعوت کو  زیادہ مُؤثِّر و کارآمد بناتی ہے۔٭نیکی کی دعوت دیتے وقت خالص  اللہ پاک کی رِضا کی نیت پر دِلی توجہ رہے ، اس عظیم کام کے صلے (بدلے) میں کسی دُنیوی مال و جاہ یا نمودونمائش  کی طلب  نہ ہوبلکہ محض بارگاہِ خداوندی سے اَجرو ثواب کی اُمّید ہو ۔ ٭ مُبَلغہ  اپنے علم کی کثرت،زورِ بیان اور صلاحیت و قابلیت پر نہیں بلکہ اللہ  پاک پر توکُّل کرنے والی  ہوکہ وُہی ہدایت دینے والاہے۔ ٭ مُبلغہ حُسنِ اخلاق کی پیکر اورنرمی کی خوگر(یعنی عادی)ہو۔٭ مُبلغہ کو کبھی راہِ خدا میں کوئی مشکل درپیش ہو جائے،  کسی تلخ  کلام سے واسِطہ پڑجائے تو صبر کرنے والی  ہو۔٭مُبلغہ کیلئے ضروری ہے کہ حالات بھانپ کر اورموقع محل دیکھ کراس کے مطابق گفتگو کرے، مُبلغہ کو خود کسی بحث وتکرار میں نہیں  اُلجھنا