Book Name:Nabi e Kareem Kay Mubarak Ashaab ki Fazilat

  کریمین(یعنی حضرت سیدنا ابو بکر صِدّیق اور حضرت سیدنا عُمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما)کا گُستاخ تھا،اُسےسمجھایا گیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ جب یہ تینوں یمن کے قریب پہنچے تو ایک جگہ قیام کیا اور سوگئے۔ جب واپسی کا وقت آیا تو ان میں سے دو نے اُٹھ کر وضو کیا اور پھر اُس گستاخ کُوفی کو جگایا۔ وہ اُٹھ کر کہنے لگا: افسوس! میں تم سے اِس منزل میں پیچھے رہ گیاہوں! تم نے مجھے عین اُس وقت جگایا جب شَہَنْشاہِ عرب و عجم، مَحبوبِ ربِّ اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم میرے سرہانے تشریف فرما ہو کرارشادفرما رہے تھے: اے فاسق! اللہ پاک  فاسِق کو ذلیل و خوار کرتاہے، اِسی سفر میں تیری شکل بدل جائے گی۔’’جب وہ گُستاخ اُٹھ کر وضو کے لیے بیٹھا تو اُس کے پاؤں کی اُنگلیاں بگڑنا شُروع ہوگئیں، پھر اُس کے دونوں پاؤں بندر کے پاؤں کی طرح ہو گئے، پھر گُھٹنوں تک بندر کی طرح ہو گیا،یہاں تک کہ اس کا سارا بدن بندر کی طرح بن گیا۔ اُس کے ساتھیوں نے اُس بندرنُما گستاخ کو پکڑ کر اُونٹ کے پالان کے ساتھ باندھ دیا اور اپنی منزِل کی طرف چل دئیے۔غُروبِ آفتاب کے وقت وہ ایک ایسے جنگل میں پہنچے جہاں کچھ بندر جمع تھے، جب اُس نے اُن کو دیکھا تو بے تاب ہو کر رسّی چُھڑائی اور اُن میں جاملا۔ پھر سبھی بندر اِن دونوں کے قریب آئے تو یہ خوفزدہ ہو گئے مگر اُنہوں نے ان کوکوئی تکلیف نہ دی،وہ بندر نُما  گُستاخ ان دونوں کے پاس بیٹھ گیا اور اِنہیں دیکھ دیکھ کر آنسو بہاتا رہا۔ ایک گھنٹے کے بعد جب بندر واپَس گئے تو وہ بھی اُن کے ساتھ ہی چلا گیا۔(شواہد النبوۃ ص۲۰۳ )

گردن میں لپٹا ہواسانپ

حضرت سیِّدُنا ابو اسحاق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: مجھے ایک میِّت کو غسل دینے کے لیے بلایا گیا، جب میں نے اُس کے چِہرے سے کپڑا ہٹایا تو اُس کی گردن میں سانپ لپٹا ہوا تھا، لوگوں نے بتایا کہ یہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان کو گالیاں دیتا تھا۔ (شَرْحُ الصُّدُور ص ۱۷۳)