Book Name:Tabarukaat Ki Barakaat

جاتی ہے،   اس بات کو اس حکایت سے سمجھئے چنانچہ اللہ پاک کے  ایک ولی  کی خدمت میں بادشاہِ وقت قدم بوسی کے لئے حاضِر ہوا ۔  ان کے پاس کچھ سیب نذر میں آئے تھے ۔  انہوں نے ایک سیب بادشاہ کو دیا اور کہا:  کھاؤ۔ اس نے عرض کی: حضور بھی نوش فرمائیں ۔  چنانچہ آپ نے بھی کھائے اور بادشاہ نے بھی ۔  اس وقت بادشاہ کو دِل میں خیال گزرا کہ یہ جو سب سے بڑا خوش رنگ سیب ہے اگر اپنے ہاتھ سے اٹھا کر مجھے دے دیں تو میں جان لوں گا کہ یہ ولی ہیں ۔  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے وہی سیب اٹھا کر فرمایا :  ہم مصر گئے تھے،   وہاں ایک جگہ پر بہت سے لوگ جمع تھے،   دیکھا کہ ایک شخص ہے اس کے پاس ایک گدھا ہے اور اس  گدھے کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے ۔  ایک شخص کی ایک چیز دوسرے کے پاس رکھ دی جاتی ہے ۔  اس گدھے سے پوچھا جاتا ہے ،   گدھا ساری مَجْلِس کا دورہ کرتا ہے ،   جس کے پاس ہوتی ہے ،   جاکر سر ٹیک دیتا ہے ۔   پھر وہ اللہ پاک کےولی فرمانے لگے: یہ حِکایت ہم نے اس لئے بیان کی کہ اگر یہ سیب نہ دیں تو ہم ولی ہی نہیں ،   اور اگر دیں گے تو اس گدھے سے بڑھ کر کیا کمال دِکھایا ۔  یہ فرما کر سیب بادشاہ کی طرف پھینک دِیا ۔  (بدگمانی،  ص35)  

میٹھی میٹھی ا سلامی بہنو! غور کیجئے! اس حکایت میں ہمارے لیے بھی سیکھنے کے مدنی پھول ہیں کہ  ہمیشہ دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لینا چاہیے،   اگر کوئی اللہ پاک کا نیک بندہ بطور ولیُ اللہ مشہور ہو تب بھی اس کا امتحان لینے سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ حسنِ ظن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔  یاد رکھئے!  حسنِ ظن میں فائدے ہی فائدے ہیں،   جبکہ بدگمانی میں نقصانات ہی نقصانات ۔  افسوس!  آج کے دور میں ہماری ایک تعداد ہے جو حسنِ ظن کی بجائے بدگمانی کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔  بات بات پہ بدگمانی کے  نظارے عام ہیں۔  کسی کو فون کریں اور وہ ریسیو Receiveنہ کرے تو بدگُمانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بیٹے کی توجہ ماں سے کم ہو جائے تو فوراً بہو سے بدگُمانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تنظیمی طور پر خِلافِ تَوَقُّع بات ہو گئی تو ذِمہ داران سے بدگُمانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِجْتِماع ذِکْر ونعت کے اِنْتِظَامات میں کمزوری ہو ئی تو فوراً مُنْتَظِمِین سے بدگُمانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اِجْتِماع ذِکْر ونعت میں کوئی اسلامی بہن  جُھوم رہی ہے یا رورہی ہے تو بد گُمانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی بُزرگ یا پِیر نے اپنے مُرِیْدِیْن یا مُتَعِّلِقْین کی ترغِیب کے لئے کو ئی اپنا واقِعہ بیان کردیا تو فوراً ان سے بدگُمانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کسی نے وَقْت دیا اور آنے میں تاخیر ہو گئی تو بد گُمانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کے پاس تھوڑے ہی عرصے میں گاڑی ،  اچھّا مکان اور دیگر سہولیات آگئیں تو بدگُمانی۔  الغرض!  ہمارا معاشرہ  اس وقت بدگمانی کی خوفناک آفت کی لپیٹ میں ہے۔

یاد رکھئے! بدگمانی دیگر کئی گناہوں میں مبتلا کرا دیتی ہے۔ ۔ ۔  بدگمانی دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں لگاتی ہے۔ ۔ ۔  بدگمانی حسد پر ابھارتی ہے۔ ۔ ۔   بدگمانی غیبت کرواتی ہے۔ ۔ ۔   بدگمانی دل میں نفرتوں کے بیج اگاتی ہے۔ ۔ ۔   بدگمانی آپس میں مزید دوریاں بڑھاتی ہے۔ ۔ ۔   بدگمانی حسنِ سلوک سے محروم کرواتی ہے۔ ۔ ۔   بدگمانی بندے کو بدخلق بناتی ہے۔ ۔ ۔  بدگمانی الزام تراشی پر ابھارتی ہے۔ ۔ ۔   بدگمانی دنیا اور آخرت میں رسوا کرواتی ہے۔  لہٰذا عقل مند وہی ہے جو بدگمانی کی بجائے حسنِ ظن کی عادت اپنائے،   کیونکہ ٭حسنِ ظن ایک عمدہ عبادت ہے،   ٭حسنِ ظن گناہوں سے بچانے والا عمل ہے،    ٭حسنِ ظن رکھنا ایمان کے تقاضوں میں سے ہے،   ٭حسنِ