Book Name:Tabarukaat Ki Barakaat

لوگوں کے تبرکات کی برکتوں سے دنیا وآخرت کی پریشانیاں دُور ہوتی ہیں۔

نیک لوگوں کے تبرکات کی برکتوں سے دعائیں قبول ہوتی ہیں،  نیک لوگوں کے تبرکات کی برکتوں سے بیماریاں ٹلتی ہیں،  نیک لوگوں کے تبرکات کی برکتوں سے گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہےاور نیک لوگوں کے تبرکات کے ادب وا حترام کی وجہ سے سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے لوگ ہدایت پاجاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تبرکات کی زیارت سے دلوں کو چین ملتا ہے، تبرکات کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے، تبرکات کی زیارت کے وقت قبولیتِ دعا کے امکان (Chance)  بڑھ جاتے ہیں، تبرکات کی زیارت سے اللہ  پاک کی رحمتیں نصیب ہوتی ہیں، تبرکات کی زیارت سےگناہوں سے بیزاری و نفرت کا ذہن بنتا ہے، تبرکات کی زیارت سےذہنی سکون ملتاہے، تبرکات کی زیارت سےزبان پرذِکْرُاللہجاری ہوجاتاہے۔تبرکات کی زیارت سےنیکیاں کرنے کا جذبہ ملتا ہے۔

آئیے!  اسی تعلق سےا یک حکایت سنتے ہیں: چنانچہ،

تبرک کے ادب کی برکتیں

حضرت سَیِّدُنا ابو علی روز باریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بہن فاطمہ بنت احمدرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہَا فرماتی ہیں: شہرِ بغداد میں کچھ نوجوانوں نے اپنے میں سے ایک کو کسی ضرورت سے بھیجا، اس نے لوٹنے میں تاخیر کردی، یہ لوگ غضبناک ہونے لگے، اتنے میں وہ ایک خربوزہ  (Melon) لئے ہنستاہواپہنچا۔  نوجوانوں نےدریافت کیا: ایک تو تُو دیر سے آرہا ہے، اس پر ہنستا بھی ہے؟ لڑکے نے کہا، میں آپ لوگوں کے لئے ایک عجیب چیز لایا ہوں۔سب نے پوچھا: وہ کیا؟ لڑکے نے اپنے ہاتھ کا خربوزہ انہیں پیش کیا اور کہا: اس خربوزے پر حضرت سَیِّدُنا بشر حافیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ہاتھ رکھ دیا تھا، اس لئے میں نے اسے20 دِرہم میں خرید لیا۔اس کی بات سُن کر سب نے خربوزے کو چُوما اور اپنی اپنی آنکھوں سے لگایا۔ان میں سےایک نے کہا، حضرت سَیِّدُنا بشرحافیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کوکس چیز نے اس مقام پر پہنچایا؟ کسی نے کہا: تقویٰ نے۔ سائل نے کہا: میں تمہیں گواہ بنا کراللہپاک سےتوبہ کرتا ہوں، اس کےبعدسب نےاسی کی طرح توبہ کی، پھر وہ سب طرطُوس نامی شہرتشریف لے گئےاوروہیں شہادت کا رُتبہ پا لیا۔  (الروض الریاحین، ص۲۱۸)  

عقیدتمندوں کی بھی مغفرت

امیرِاہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی مایہ ناز تصنیف”نماز کے احکام“صفحہ نمبر372 پر تحریر فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُنابِشرِحافیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو انتِقال کے بعدقاسم بنمُنَبِہّ نے خواب میں دیکھ کرپوچھا، ما فَعَلَ اللہُ بِکَ؟ یعنی  اﷲپاک نے آپ کے ساتھ کیا مَعامَلہ فرمایا؟ جواب دیا ، اﷲ کریم نے مجھے بخش دیا اور ارشاد فرمایا،  تم کو بلکہ تمہارے جنازے میں جو جو شریک ہوئے، ا ن کو بھی میں نے بخش دیا۔ تو میں نے عرض کیا،  یااﷲ پاک مجھ سے مَحَبَّت کرنے والوں کو بھی بخش دے ۔ تو اﷲ کریم کی رَحمت مزید جوش پر آئی اور فرمایا: قِیامت تک جو تم سے مَحَبَّت کریں گے،  اُن سب کو بھی میں نے بَخْش دیا۔

 (شرح الصُدور، ص ۲۸۹)

بشرحافی سے ہمیں تو پیارہے       اِنْ شَاۤءَ اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پارہے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  غور کیجئے!  حضرت سیدنا بشر حافی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ لگائے ہوئے خربوزے کا ادب کرنے کی وجہ سے ان نوجوانوں کے دلوں کی کایا پلٹ گئی،  انہوں نےگناہوں سے توبہ کی اور شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے،  اس حکایت سے ہمیں یہ مدنی پھول ملا کہ اگر بزرگوں سے نسبت رکھنے والی کسی شے کا خلوصِ دِل  سے اِحترام کیا جائے تو بندے دِین و دنیا کی سعادتوں سے سرفراز ہوسکتےہیں۔آج بھی جب مساجد