Book Name:Tabarukaat Ki Barakaat

میں، اِجتماعِ میلاد میں اوردیگرمقامات پر تبرکات کی زیارت ہوتی ہے تو لوگ جوق در جوق، والہانہ محبت و عقیدت سے اس میں شرکت کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں کو روشن کرتے ہیں۔ یوں لوگوں میں دِین پر عمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور لوگ نیک کاموں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

تبرک کی توہین پر سزائیں

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  جس طرح تبرکات کی تعظیم اور اِحترام کرنے سے کئی فائدے ملتےہیں اور برکتیں نصیب ہوتی ہیں،  اسی طرح اگر ان کی تعظیم نہ کی جائے اور ان کی بے ادبی اور توہین  کی جائے تو  بسا اوقات دنیا میں ہی اس کی سزا بھی مل جاتی ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال تابوتِ سکینہ ہے، چنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی 430 صفحات پر مشتمل کتاب ” عجائب القرآن مع غرائب القرآن“کے صفحہ نمبر 52-53 پر ہے:  (تابوتِ سکینہ) شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام پر نازل ہوا، آپ عَلَیْہِ السَّلامکی آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا، پھر بطورِ میراث یکے بعد دیگرے آپ عَلَیْہِ السَّلام کی اولاد کو ملتا رہا، یہ بڑا ہی مُقَدَّسْ اور بابرکت صندوق  (Box) تھا۔بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے، صندوق سے فیصلے کی آواز اور فتح کی بشارت سُنی جاتی تھی، بنی اسرائیل اس صندوق کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں، بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں، الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوتِ سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرتِ خداوندی کے نزول کا نہایت مُقَدَّسْ اور بہترین ذریعہ تھا۔ مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں معاصی و طُغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہوگیا کہ قومِ عَمَالِقَہ کے کفار نے ایک لشکرِ جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا،  ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتلِ عام کر کے ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کرڈالا۔عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کرڈالا اور اس متبرک صندوق کو بھی اُٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کُوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قومِ عَمَالِقَہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں کے ہجوم میں جھنجھوڑ دیئے گئے۔ چنانچہ قوم عَمَالِقَہکے 5 شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق ِرحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان  لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کربیلوں کوبنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔ (عجائب القرآن، ص۵۲، ۵۳)  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  بیان کردہ واقعے سے معلوم ہوا! بزرگوں کے تبرکات کی اِہانت و بے ادبی کرنا قہرِ قہّار اور غضب ِ جبّار کو دعوت دینا ہے، کیونکہ قومِ عَمَالِقَہ نے جب اس بابرکت صندوق کی بے ادبی کی توان پر ایسا قہرِ الٰہی کا پہاڑ ٹُوٹا کہ وہ بلاؤں کے ہجوم سے بلبلا اُٹھے اور انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ ہم پر بلاؤں اور وباؤں کا حملہ اسی بابرکت صندوق کی بے ادبی کی وجہ سے ہوا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو بیل گاڑی پر لاد کر بنی اسرائیل کی بستی میں بھیج دیا تاکہ وہ لوگ غضب ِ الٰہی کی بلاؤں سے نجات پالیں۔

اس واقعے سے یہ مدنی پھول بھی ملا کہ کوئی بھی قوم تب تک اللہ پاک کی رحمتوں اور نعمتوں سے حصہ پاتی رہتی ہے،  جب تک وہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتی رہے۔ جب وہ اللہ پاک کی نافرمانی اور گناہوں میں مبتلا ہوجائے تو دنیا اور آخرت کی کئی پریشانیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں،  جیسا کے بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ جب تک وہ انبیائے کرام عَلَیْہِ السَّلَام کے تابعدار (Obedient)  رہے،  ان کی بیان کردہ باتوں پر عمل کرتے رہے اور ان کے احکامات کی پیروی کرتے رہے تو نہایت سکون اور اطمینان سے رہے لیکن جیسے ہی انہوں نے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلوۃُ وَ السَّلَام کے بتائے ہوئے احکاماتِ الٰہیہ سے منہ موڑا، ذِلّتیں اور رُسوائیاں ان کا مقدر بن گئیں۔  اگر غور کیا جائے تو آج مسلمانوں کی بھی یہی حالت ہے۔ صدیوں تک مسلمان دنیا پر غالب رہے اور ہر میدان میں ترقی کرتے رہے۔ لیکن جب سے قرآنِ کریم کے احکامات اور اس کی تعلیمات پر عمل سے دُور ہونے لگے اور سرورِ دوعالم،  نورِ مجسم صَلَّی