Book Name:Tabarukaat Ki Barakaat
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ! آج ہم”تبرکات کی برکات“سننے کی سعادت حاصل کریں گے۔تبرکات اور اس کے ثبوت میں دو (2) قرآنی واقعات، صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نبیِ اکرم، رسولِ محتشم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مقدس تبرکات کی کیسی تعظیم کیا کرتے تھے؟ تبرکات کی تعظیم سے کیا کیا فائدے ہوتے ہیں؟ تبرکات کی بے ادبی سے کیا نقصانات ہوتے ہیں یہ بھی سنیں گے۔اللہ پاک کرے کہ ہم سارا بیان توجہ کے ساتھ سننے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سورۂ یوسُف میں اللہ پاک کے نبی حضرت سیدنا یعقوب اور حضرت سیدنا یوسُف عَلَیْہِمَا السَّلَامکا طویل واقعہ بیان ہوا ہے، جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکو ان کے سوتیلے بھائیوں نے دھوکے سے کنویں میں ڈال دیا اور کچھ تاجر انہیں کنویں سے نکال کر مصر لے گئے اور وہاں بیچ دیا، حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام اپنے بیٹے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکی جدائی سے بڑے غمگین ہوئے اور اس غم میں آنسو بہا بہا کر آنکھوں کی روشنی مُتأثر ہوئی، کئی سال بعد جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکواپنے بھائیوں کے ذریعے والدِ محترم کی بصارت کی کیفیت کا معلوم ہوا تو انہوں نے اپنی قمیص بطورِ تبرک اپنے والد ِ محترم کیلئے بھیجی اور جو کچھ فرمایا، قرآنِ پاک میں وہ یوں بیان کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ13، سُورۂ یُوسف کی آیت نمبر93میں اِرشادہوتاہے:
اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ (پ۱۳، یوسف: ۹۳)
تَرجَمَۂ کنزُالایمان: میرا یہ کُرتالے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پرڈالو اُن کی آنکھیں کُھل جائیں گی۔
جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکے بھائیوں نے وہ کُرتا حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَامکے چہرے پر ڈالا تو کیا ہوا، اسے کچھ آیات کے بعد یوں بیان کیا گیا ہے:
فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًاۚ
تَرجَمَۂ کنزُالایمان: پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کُرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس
(پ۱۳، یوسف: ۹۶) کی آنکھیں پھر آئیں (روشن ہوگئیں)
تفسیر صِراطُ الْجِنَان میں ہے: جمہورمفسرین فرماتے ہیں کہ خوشخبری سنانے والے حضرت یوسُف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی یہودا تھے۔یہودا نے کہا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَامکے پاس خون آلودہ قمیص بھی میں ہی لے کر گیا تھا، میں نے ہی کہا تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو بھیڑیا کھا گیا، میں نے ہی اُنہیں غمگین کیا تھا، اس لئے آج کُرتا بھی میں ہی لے کر جاؤں گا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکی زندگانی کی خبر بھی میں ہی سناؤں گا۔چنانچہ یہودا کُرتا لے کر 80 فرسنگ (یعنی240میل) دوڑتے آئے۔یہودا نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکی قمیص حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَامکے چہرے پر ڈالی تو اُسی وقت ان کی آنکھیں درست ہوگئیں اور کمزوری کے بعد قوت اور غم کے بعد خوشی لوٹ آئی، پھر حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں اللّٰہ پاک کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَامزندہ ہیں اور اللّٰہ پاک ہمیں آپس میں ملا دے گا۔ ( تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۶ / ۵۰۸، جمل مع جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۸۰، ملتقطاً) (صراط الجنان، ۵ / ۵۴ملخصاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غور کیجئے! حضرت سیدنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَامخود نبی ہیں، وہ ایک اور نبی ، اپنے والد حضرت سیدنا یعقوب عَلَیْہِ السَّلَامکے آنکھوں کے مرض کیلئے بطورِ تبرک اپنا کُرتا بھیج رہے ہیں اور جب اس کُرتے کو ان کے چہرے پر ڈالا گیا تو اللہ پاک نے انہیں آنکھوں کی بیماری سے شفا