Book Name:Tabarukaat Ki Barakaat

       البتہ یاد رہے! وظائف وغیرہ رِضائے الٰہی کے لیے کیے جائیں،  نہ کہ کام بنانے کے لیے،  جس نے صرف اپنی غرض کے لیے ہی وظائف کیے تو اسے ثواب نہ ملے گا۔چاہیے یہ کہ وظائف اللہ پاک کی  رِضا کے لیے کرے اور اس کے وسیلے سے اللہ پاک سے اپنا کام ہونے کی دعا کرے۔

کوئی آیا پا کے چلا گیا                                           کوئی عُمر بھر بھی نہ پا سکا

مِرے مَولیٰ تُجھ سے گِلہ نہیں                          یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!   تبرکات سے برکتیں ملتی ،  مشکلات دور ہوتی  اور مصیبتیں ٹلتی ہیں یہ عقیدہ رکھنا آج کی نئی بات نہیں ہے،  کیونکہ قرآنِ پاک کی کئی آیات میں تبرکات کی اہمیت اور پچھلی اُمّتوں کے تبرکات سے فیض پانےکے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔تابوتِ  سکینہ ( وہ متبرک صندوق جس میں انبیائے کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے تبرکات رکھے جاتے تھے) سے بنی اسرائیل کا برکتیں لینا، محرابِ مریم میں حضرت سیدنازکریاعَلَیْہِ السَّلَامکادُعا مانگنااور اس کا قبول ہونا۔ تبرکات سے برکتیں پانے کے یہ وہ واقعات ہیں جو قرآنِ پاک میں بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔آئیے!  تبرکات کی برکتیں ملنے سے متعلق ایک قرآنی واقعہ سنتے ہیں:

مقامِ ابراہیم سے تبرک

            کعبہ ٔمُعظّمہ  میں ایک پتھر ہے جسےمقامِ ابراہیم کہتے ہیں۔ یہ وہ پتھر ہے جس پر اللہ پاک کے نبی،  جنابِ حضرت ابراہیمعَلَیْہِ السَّلَام نے اپنا قدم مبارک رکھا،  توجتنا ٹکڑا ان کےزیرِ قدم آیا ، تر (گِیلی)  مٹی کی طرح نرم ہوگیا، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کاقدم مبارک اس میں جم  گیا، پھر جب ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے قدم اُٹھایا، اللہ پاک نےدوبارہ اس ٹکڑےمیں پتھر کی سختی پیداکردی کہ وہ نشانِ قدم محفوظ رہ گیا۔ (فتاوی رضویہ ،  ۲۱ / ۳۹۸ ملتقطاً) ربِّ کریمجَلَّ جَلَالُہ نےرہتی دنیاکےتمام مسلمانوں کومقامِ ابراہیم کی  تعظیم کرنےاوراس  کاقرب پانےاوراس کے قریب  (Near) نمازپڑھنےکاحکم ارشاد فرمایا،  چنانچہ اللہ پاک پارہ1سورۃُ البقرہ کی آیت نمبر 125 میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ-  (پ۱، البقرۃ: ۱۲۵)                       تَرْجَمَۂ کنز الایمان: اورابراہیم کےکھڑےہونےکی جگہ کو  نماز کا مقام بناؤ۔

حکیم الامت،  حضرت مفتی احمدیارخان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہفرماتےہیں: مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہےجس پرکھڑےہوکرابراہیمعَلَیْہِ السَّلَامُنےکعبۂ معظمہ کی تعمیرکی، وہ بھی حضرتخَلِیْلُاللہعَلَیْہِ السَّلَامُکی برکت سے شَعَائِرُ اللہبن گیااوراس کی تعظیم ایسی لازم ہوگئی کہ طواف کےنفل اس کے سامنے کھڑے ہوکرپڑھنا سُنّت ہوگئے۔جب بزرگانِ دِینرَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین کےقدم پڑجانے سے صفا مروہ اورمقامِ ابراہیم شَعَائِرُ اللہ (یعنیاللہ پاک کی نشانیاں) بن گئےاورقابلِ تعظیم ہوگئےتو انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلام و اولیائے عظامرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہم اجمعین کے مزارات (Shrines) ، جس میں یہ حضرات دائمی قیام فرما ہیں،  یقیناً شَعَائِرُ اللہ ہیں اور ان کی تعظیم (ہرایک مسلمان پر) لازم ہے۔ (علم القرآن، ص۴۸ ملتقطاً)

تفسیرِصراط الجنان“میں ہے: اس (آیت) سےمعلوم ہوا! جس پتھرکونبیعَلَیْہِ السَّلَام کی قدم بوسی حاصل ہوجائےوہ عَظْمَت والاہوجاتاہے۔یہ بھی معلوم ہوا! جب پتھر نبیعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکےقدم  مبارک لگنے سےعَظْمَت والاہوگیا توحضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات،  اہلِ بیت اور صحابَۂ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کیعَظْمَت کاکیا کہنا۔  (لہٰذا)  اس سےتبرکات کی تعظیم کا بھی ثبوت  (Proof)  ملتا ہے۔ (صراط الجنان، ۱ / ۲۰۵)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

12 مدنی کاموں میں سے ایک  مدنی کام  ”ہفتہ وار اجتماع “