Book Name:Tabarukaat Ki Barakaat

(وسائلِ بخشش مرمم، ص۶۴۷)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بدگمانی سے بچئے!

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  اولیائے کرام اور اللہ  پاک کے نیک بندوں سے تبرُّک لینے میں دل میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوناچاہیے،  دل میں مختلف وساوس کو جگہ دے کر،  امتحان لینے اور آزمانے کی آرزو لے کر تبرکات لینے والے کوبسا اوقات ہاتھوں ہاتھ سزا بھی مل جاتی ہے،  اس بات کو اس حکایت سے سمجھئے، چنانچہ

اللہ پاک کے ایک ولی کی خدمت میں بادشاہِ وقت قدم بوسی کے لئے حاضِر ہوا ۔ ان کے پاس کچھ سیب نذر (یعنی کسی کی طرف سے تحفے )  میں آئے تھے ۔ انہوں نے ایک سیب بادشاہ کو دیا اور کہا:  کھاؤ۔اس نے عرض کی: حضور بھی نوش فرمائیں ۔ چنانچہ آپ نے بھی کھائے اور بادشاہ نے بھی ۔ اس وقت بادشاہ کو دِل میں خیال گزرا کہ یہ جو سب سے بڑا خوش رنگ سیب ہے،  اگر اپنے ہاتھ سے اُٹھا کر مجھے دے دیں تو میں جان لوں گا کہ یہ ولی ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے وہی سیب اٹھا کر فرمایا :  ہم مصر گئے تھے،  وہاں ایک جگہ پر بہت سےلوگ جمع تھے،  دیکھا کہ ایک شخص ہےجس کے پاس ایک گدھا ہے اور اس  گدھے کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے ۔ ایک شخص کی ایک چیز دوسرے کے پاس رکھ دی جاتی ہے ۔ اس گدھے سے پوچھا جاتا ہے ،  گدھا ساری مَجْلِس کا دورہ کرتا ہے ،  جس کے پاس ہوتی ہے ،  جاکر سر ٹیک دیتا ہے ۔  پھر وہ اللہ پاک کےولی فرمانے لگے: یہ حِکایت ہم نے اس لئے بیان کی کہ اگر یہ سیب نہ دیں تو ہم ولی ہی نہیں  اور اگر دیں گے تو اس گدھے سے بڑھ کر کیا کمال دِکھایا۔یہ فرما کر سیب بادشاہ کی طرف  پھینک دِیا ۔  (بدگمانی، ص35)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  غور کیجئے! اس حکایت میں ہمارے لیے بھی سیکھنے کے مدنی پھول ہیں کہ  ہمیشہ دوسروں کے بارے میں حُسنِ ظن سے کام لینا چاہیے،  اگر کوئی اللہ پاک کا نیک بندہ بطورِ ولی اللہ مشہور ہو تب بھی اس کا امتحان لینے سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ حُسنِ ظن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اسی طرح تبرکات کے معاملے میں شک نہیں کرنا چاہیے، البتہ یہ یاد رہے کہ ولی پابندِ شریعت ہوتا ہے۔ اگر لمبی لمبی لِٹّوںوالا، بہت سی انگوٹھیا ں پہننے والا،  بے نمازی شخص ہمیں کسی مزار کے باہر مل جائے تو وہ ولی کیسے ہو سکتا ہے؟  یہ بھی یادرہے کہ ولی "عالِم" ہوتا ہے۔ آپ داتا صاحب،  خواجہ صاحب،  غوثِ پاک (رَحمۃُ اللہِ تعالیٰ عَلَیْھِم اَجمعین)  بلکہ کسی بھی مشہور بزرگ کے واقعات پڑھیں گے تو آپ کو سب کی سیرت میں یہ یہی ملے گا کہ ان  کی زندگی کا ابتدائی حصہ علمِ دین کے حصول میں گزرا۔

یاد رکھئے! حُسنِ ظن میں فائدے ہی فائدے ہیں،  جبکہ بدگمانی میں نقصانات ہی نقصانات ہیں۔ افسوس!  آج کے دور میں ہماری ایک تعداد ہے جو حُسنِ ظن کی بجائے بدگمانی کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔ بات بات پہ بدگمانی کے نظارے عام ہیں۔ کسی کو فون کریں اور وہ ریسیو Receiveنہ کرے تو بدگُمانی ۔۔ بیٹے کی توجہ ماں سے کم ہو جائے تو فوراً بہو سے بدگُمانی،  کسی اچھی نوکری سے فارغ ہوگئے تو دفتر کے کسی فَرْد سے بدگُمانی،  کاروبار میں نُقصان ہو گیا تو قریبی دُکاندارسے بدگُمانی ، اپنی ہی کمزور کارکردگی یا کسی تنظیمی مصلحت کے پیشِ نظرتنظیمی ذمہ داری ختم کردی گئی یاتبدیل ہوگئی تو ذِمہ داران سے بدگُمانی، اِجْتِماعِ ذِکْر ونعت کے اِنْتِظَامات میں کمزوری ہو ئی تواِنتظام کرنے والوں سے فوراً بدگُمانی،  اِجْتِماع ذِکْر ونعت میں کوئی شخص عشقِ رسول میں جُھوم رہا ہے یااپنے گناہوں کو یادکرکے رورہا ہے تو بد گُمانی، کسی بُزرگ یا پِیر نے اپنے مُرِیْدِیْن یا مُتَعِّلِقْین کی ترغِیب یا تحدیثِ نعمت (یعنی نعمت کے چرچے)  کے لئے  کو ئی اپنا واقِعہ بیان کردیا تو فوراً ان سے بدگُمانی، جس نے قَرْض لیا اور وہ رَابِطے میں نہیں آرہا یا جس سے مال بُک کروالیا وہ مِل نہیں رہا تو فوراً بدگُمانی ،  کسی نے وَقْت دیا اور آنے میں تاخیر ہو گئی تو بد گُمانی، کسی کے پاس تھوڑے ہی عرصے میں گاڑی ، اچھّا مکان اور دیگر سہولیات آگئیں تو بدگُمانی۔ الغرض!  ہمارا معاشرہ