Book Name:Aashiqoon Ka Hajj

باعث بھی بنتے ہیں۔ نہ جانےایسے لوگوں کی  ان حرکتوں سے کتنوں کے حج و عُمرہ خراب ہوتے ہوں گےاور اُن کے ذَوق وشَوق میں خلل پیدا ہوتا ہوگا۔

اگرہم اَولیائے کاملین اوربُزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کےسفرِحرمین کے واقعات کا مُطالَعہ کریں تو ہمیں  پتہ چلے گا کہ یہ حضرات   اِنْتہائی اَدب  وتعظیم کے ساتھ سَفرِ حج پر روانہ ہوتے، اللہ  کریم سے  رو رو کر مُناجات کرتے ، اپنے گُناہوں کی معافی مانگتے، عاجزی و اِنکساری اپناتے اور  خوفِ خدا اور عشقِ  رسول  سے سرشار ہو کر کچھ اس طرح سفرِ مدینہ کےلیے روانہ ہوتے کہ ان کی صُحبت کی بَرَکت سے دوسرے لوگ  بھی ان کے رَنگ میں رَنگ جایاکرتے تھے۔آئیے!ایک نہایت اِیْمان اَفروز حکایت سُنتے ہیں۔ چُنانچہ،

حضرتِ سیِّدُ نا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:حضرت سَیِّدُنا بُہَیْم عِجلیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مجھ سے فرمایا : میرا حج کا اِرادَ ہ ہے کسی کو میرا رفیقِ سفر بنادیجئے۔ چُنانچِہ میں نے اپنے ایک پڑوسی کو اُن کے ساتھ سَفرِ مدینہ پرآمادہ کرلیا۔ دوسرے دن میرا پڑوسی میرے پاس آیا اور کہنے لگا:میں حضرتِ سیِّدُنا بُہَیْمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ میں نے حیرت سے کہا :خُدا کی قسم ! میں نے کُوفہ بھر میں ان جیسا بااَخلاق آدَمی نہیں دیکھا،آخِر کیا وَجہ ہے کہ تم ان کی رَفاقت سے خُود کو مَحروم کررہے ہو؟وہ بولا:میں نے سُنا ہے کہ وہ اکثر روتے رہتے ہیں، اِس لیے ان کے ساتھ میرا  سفر  خُوشگوار نہیں رہے گا۔ میں نے اُس کو سمجھایا کہ یہ بَہُت اچھّے بُزُرگ ہیں، ان کی صُحبت اِنْ شَآءَ اللہتمہارے لیے نہایت نفع بَخْش ہوگی، وہ مان گیا۔ جب سفر کے لیے اُونٹوں پر سامان لادا جانے لگا تو حضرتِ سیِدُنابُہَیْم عِجلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی ایک دیوار کے قریب بیٹھ کر رونے میں مشغول ہوگئے ، حتّٰی کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی داڑھی مبارَک اور سینہ اَشکوں سے تَر ہوگیا اور آنسو زمین پر ٹَپ ٹَپ گِرنے لگے۔ میرے پڑوسی