Book Name:Aashiqoon Ka Hajj

آلُود،جسم اور چہرہ نِہاىت مىلا کُچىلا ہے،مشائخ نے تَعَجُّب کرتے ہوئے ہارون رشىد کے وَزىر سے پُوچھا:آپ نے مَساکىن کى طرح  شکل بنا کر بغىر جُوتے کے جنگلوں اورمىدانوں مىں پىدل سفر کىوں فرماىا؟ اُنہوں نے جواب دىا: آپ بتائىں اىک بندہ جب اپنے مَولا کے دروازے پر حاضرى دے اس کى کىا کىفىَّت ہونى چاہىے؟ مىں پِىادَہ (پیدل)چل کر حاضر ہوا ہوں،حق تو ىہ تھا کہ سَر کے بَل چل کرآتا۔ ( البحر العمىق، ص ۳۱۹)

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا

اَرے سَر کا مَوقع ہے او جانے والے

(حدائقِ بخشش ص:۱۵۸)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! آپ نےسنا کہ حضرت سَیِّدُنا عبدُاللہ بن مَسْروق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب  سَفرِِمکّہ کیلئے روانہ ہوئے تو اِنْتہائی خَسْتہ (خراب )حالت میں ننگے پاؤں سُوئے حَرَم چل پڑے، جب وَجہ پُوچھی گئی تو کتنا پیاراجواب عَطا فرمایا کہ جب ایک غُلام اپنے مَولا کی بارگاہ میں حاضِر ہوتو حق  تویہ ہے کہ سَر کے بَل چل کر آئے ، میں تو پھر بھی پِیادَہ(پیدل) حاضر ہوا ہوں۔ یقیناًاس عظیمُ الشّان بارگاہ کے مُناسِب بھی یہی ہے کہ بندہ جب وہاں جائے تو غروروتکبروالااَنداز نہ ہوبلکہ اِنْتہائی عاجزی واِنکساری  کے ساتھ حاضری کی سَعادَت پائے۔حدیثِ پاک میں بھی اس کی ترغیب ملتی ہے۔چُنانچہ بارگاہِ رسالت میں کسی نےعرض کی:یارَسُولَاللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) حاجی کو کیسا ہونا چاہیے؟ ارشاد فرمایا: پَرا گندہ  سَر ، میلا کُچیلا۔ (شرح السنہ للبغوی ،کتاب الحج ،باب وجوب الحج الخ ،ج۴، ص:۹، حدیث: ۱۸۴۰)