Book Name:Faizan e Mushkil Kusha

حضرت علامہ سیِد محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں حضرت اسماء بنتِ عُمیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے سُنا کہ صَالِحُ الْمُؤمِنین سے مُراد حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ایسے ہی حضرتِ ابُو جَعفَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ کَرِیمہ نازِل ہوئی تو نبیِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت علیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا ہاتھ پکڑ کرفرمایا:اے لوگوں یہ(یعنی حضرتِ علیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) صَالِحُ المُؤمِنین ہیں۔ (روح المعانی ،ج۲۸، ص۴۸۲)

علی کی شانِ یگانہ:

صَدرُالاَفاضل حضرت علامہ مولانا سیِدمحمدنعیمُ الدین مُرادآبادی  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی فرماتے ہیں:سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں جب اغنیاء (مالداروں)نے عَرْض و معروض کا سلسلہ دراز کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ فُقراء کو اپنی عرض پیش کرنے کا مَوقع کم ملنے لگا تو عرض پیش کرنے والوں کو عرض پیش کرنے سے پہلے صَدَقہ دینے کا حکم دیا گیا اور اِس حکم پر حضرت علیِ مرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عمل کیا ، ایک (1)دِینار صَدَقہ کرکےکچھ مَسائل دَریافت کئے ، عرض کیا یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وفا کیا ہے ؟ فرمایا توحید اور توحید کی شہَادت دینا ۔ عرض کیا ، فَساد کیا ہے ؟ فرمایا کفر و شرک ۔ عرض کیا حق کیا ہے ؟ فرمایا اسلام و قرآن اور ولایت جب تجھے ملے ۔ عرض کیا مجھ پر کیا لازِم ہے ؟ فرمایا اللہ تَعالیٰ اور اُس کے رسول کی طاعَت ۔ عرض کیا!اللہ تَعالیٰ سے کیسے دُعا مانگوں؟ فرمایا: صِدق ویقین کے ساتھ ۔ عرض کیا ،کیا مانگوں  ؟ فرمایا: عاقِبت(یعنی آخرت)۔عرض کیا !اپنی نَجات کےلئے کیا کروں ؟ فرمایا حَلال کھا ؤاور سچ بولو ۔ عرض کیا سُرورکیا ہے ؟  فرمایا: جنّت ۔عرض کیا راحَت کیا ہے ؟ فرمایا اللہ  پاک  کا دیدار ۔ جب حضرت علیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان سُوالوں سے فارغ