Book Name:Gunahon Ki Nahosat

آئی،''اے علی(کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)!آپ (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) اِس کی سِفارش نہ ہی فرمائیں کیوں کہ روزے رکھنے کے باوُجُودیہ شخص رَمَضانُ الْمُبارَک کی بے حُرمتی کرتا،رَمَضانُ الْمُبارَک میں بھی گُناہوں سے بازنہ آتا تھا۔دن کو روزے تَو رکھ لیتا مگر راتوں کو گُناہوں میں مُبْتَلارہتا تھا۔مَولائے  کائنات،علیُّ المُرتَضٰی،شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم یہ سُن کر اور بھی رَنْجِیْدہ ہوگئے اور سَجدے میں گِر کر رو رو کر عرض کرنے لگے،یااللہ  کریم!میری لاج تیرے ہاتھ میں ہے،اِس بندے نے بڑی اُمّید کے ساتھ مجھے پُکارا ہے ، میرے مالِک! تُو مجھے اِس کے آگے رُسوا نہ فرما، اِ س کی بے بَسی پر رَحْم فرمادے اور اِس بیچارے کو بَخش دے ۔حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمرو رو کرمُناجات کررہے تھے۔ اللہ کریم کی رَحْمت کا دَریا جوش میں آ گیا اور نِدا آئی ، اے علی!( کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)!ہم نے تمہاری شِکَستہ دِلی کے سَبَب اِسے بخش دیا۔چُنانچِہ اُس مُردے پر سے عذاب اُٹھا لیا گیا۔ (انیسُ الْواعِظین ص۲۵،فیضانِ سنت، ص:۹۲۲)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                               صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!اس حِکایت میں ہمارے لئے عِبْرت کے بے شُمار مَدَنی پُھول ہیں۔ زِنْدہ انسان خُوب پُھدَکتا ہے مگر جب موت کا شکار ہوکر قَبْر میں اُتار دیا جاتا ہے ، اُس وقت آنکھیں بند ہونے کے بَجائے حقیقت میں کُھل چکی ہوتی ہیں ۔اچّھے اَعْمال اور راہِ خُدا میں دیا ہوا مال تو کام آتا ہے مگر جو کچھ دَھن دولت پیچھے چھوڑ آتا ہے اُس میں بھلائی کا اِمکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔ وُرثاء سے یہ اُمّید کم ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مرحوم عزیزکی آخِرت کی بہتری کیلئے مالِ کثِیر خرچ کریں۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                         صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

8مدنی کاموں میں سے ایک ”گھر درس“