Book Name:Ashabe Khaf Ka Waqiya

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  !سنا آپ نے کہ جو اپنے دِین و اِیمان کی حِفاظَت کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرتا ہے تواللہ تعالیٰ غیب سے اُس کی حفاظت کے لئے ایسے اسباب پیدا  فرما دیتا ہے کہ  عقلیں حیران رہ جاتی ہیں۔ چونکہ اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی اپنے دین و اسلام  کی حفاظت کی خاطر لوگوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے غار میں پناہ لی،لہٰذا اللہ تعالیٰ نے غار کو ایک خاص ہیبت بخش کر ان کی حفاظت فرمائی کہ کوئی ان تک جا نہیں سکتاتھا۔ہمیں بھی چاہئے کہ فتنوں اور فتنہ پھیلانے والوں سے دُور رہتے ہوئے نیک لوگوں کی صحبت کی صورت میں ایسا ٹھکانا اختیار کریں جو فتنوں سے حفاظت کا ذریعہ ہو۔نبیِ کریم، رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بھی ہمیں فتنوں سے بچنے کے لئے اچھا ٹھکانا اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: عنقریب ایسے فتنے ہوں گے، اِن میں بیٹھے رہنے والا، کھڑے ہونے والے سے ، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا ،جواِن کی طرف جھانکے گا وہ اُسے اُچک لیں گے، اِس لیے جو کوئی پناہ یا ٹھکانا پائے تو اِس کی پناہ میں آجائے۔

حضرت عَلامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:  اِس فرمانِ عالی شان میں بیٹھنے سے مُراد ،اِن فتنوں سے الگ تھلگ رہنااور بالکل واسطہ نہ رکھنا ہے ،یہ اِن فتنوں سے حِفاظت کا ذریعہ ہوگا ، وہ نہ فتنوں کو دیکھے گا نہ اِن کا اثر لے گا ۔ کھڑے رہنے سے مُراددُور سے اِنہیں دیکھنا، اِن پر خبردار اور مطلع ہوناہے۔چلنے سے مُراد اِن میں معمولی طورپرمشغول ہونا ہے۔ دَوڑنے سے مُراد ان میں خوب مشغول ہوناہے ۔ٹھکانے سے مراد اَمن کی جگہ اور پناہ سے مُراد وہ آدمی ہے جو اُسے فتنوں سے بچالے یعنی یا تو پناہ کی جگہ چلا جائے یا ایسے شخص کے پاس رہے جو اُس کو اِن فتنوں سے بچائے۔(1)

مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

[1] مرقاۃ المفاتیح،۹/۲۶۱،تحت الحدیث:۵۳۸۴