رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نام و کنیت پانے والے

ماں باپ کے نام

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نام و کنیت پانے والے

*مولانا سید عمران اختر عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء

پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ کا ایک بہت اہم پہلو آپ کی جانب سے لوگوں کو نام ،   کنیت اور لقب دیا جانا بھی ہے۔ نام اچھے رکھنا اور اچھے ناموں سے ہی ایک دوسرے کو پکارنا نیز برے نام نہ رکھنا اور دوسروں کو برے ناموں سے نہ پکارنا یہ آپ کی عظیم تعلیمات کا حصہ ہے۔ بہت سے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنے بچّوں کا نام رکھوایا کرتے تھے جبکہ بہت سوں کے نام آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود تبدیل فرمائے ،   بعضوں کو کنیت عطا فرمائی ،  آئیے اس ضمن میں چند روایات ملاحظہ کیجئے :

حضورِ اکرم کے عطا کئے گئے نام

 ( 1 ) ’’ محمد ‘‘ نام رکھا جب اُمُّ المؤمنین حضرت زینب بنت جَحْش  رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت حَمْنَہ  رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے حضرت محمد بن طَلْحَہ  رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے تو ان کے والد  ( نام رکھوانے کے لئے )  انہیں لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے ،   پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ’’ محمد ‘‘ نام رکھا پھر اِنہیں اپنی کنیت اَ بُو الْقَاسِم بھی عطا فرمائی۔[1]

 ( 2 ) ’’ عبدُ اللہ “ نام رکھا حضرت مُطیع بن اسود رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ انہیں کھجوروں کی تھیلی دی گئی ،   انہوں نے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنا خواب بیان کیا ،   تو آپ نے پوچھا : کیا تمہاری زوجہ اُمید سے ہے ؟   انہوں نے عَرْض کی : جی ہاں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عنقریب اس سے تمہارا بیٹا پیدا ہوگا۔ جب بچّہ پیدا ہوا وہ اسے بارگاہِ رسالت میں لے کر حاضر ہوئے ،   آپ نے اسے کھجور کی گھٹی دی ،   اس کا نام عبدُ اللہ رکھا اور اس کے لیے بَرَکت کی دعا بھی فرمائی۔[2]

یاد رہے کہ عبدُ اللہ کا مطلب ہے ”اللہ کا بندہ“لہٰذا یہ نام حقیقت کے عین مطابق ہے کیونکہ بلاشُبہ سبھی انسان اللہ کے بندے ہیں ،   اسی معنوی خوبصورتی کی وجہ سے یہ نام بہت ہی پیارا ہے ،   نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عبدُ اللہ بن مُطیع کے علاوہ بھی کئی صحابہ کو یہ نام عطا فرمایا ہے ،   جیساکہ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کے پیدا ہونے پر جب اسے بارگاہِ رسالت میں پیش کیا گیا تو حضور اکرم نے چند کھجوریں چباکر بچے کے منہ میں ڈالیں اور اس کا نام عبدُ اللہ رکھا۔[3]

 ( 3 ) ”اِبراہیم“ نام رکھاحضرت ابو موسیٰ اَشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو میں اسے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لے گیا ،   آپ نے اس کا نام ’’ اِبراہیم ‘‘ رکھااور اسے کھجور سے گھٹی دی۔[4]

 ( 4 )  ’’ عبدُ الْمَلِک ‘‘ نام رکھاحضرت سیِّدُنا نُبَیْط بن جابِر رضی اللہ عنہ بھی اپنے بیٹے کی ولادت کے بعد اسے لائے اور عرض کی : یا رسول اللہ آپ اس کا نام رکھ دیجئے ،   آپ نے بچّے کا نام عبدُ الْمَلِک رکھا اور اس کے لئے بَرَکت کی دعا بھی کی۔[5]

 ( 5 ) ’’ سِنان ‘‘ نام رکھاحضرت سَلَمَہ ہُذَلی رضی اللہ عنہ جو غزوۂ حُنین میں رسولُ اللہ کے دفاع کے لئے تیر برسا رہے تھے ،   اسی دوران اپنے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی خوشخبری ملی تو فرمایا : رسولُ اللہ کی حفاظت کے لئے تیر برسانا مجھے اس خوشخبری سے زیادہ عزیز ہے[6]پھر بعد میں اپنے بیٹے کو بارگاہِ رسالت میں لائے ،   تو حضورِ اکرم نے انہیں گھٹی دی ،  ان کے منہ میں لعابِ دَہن ڈالا ،   دعا سے نوازا اور سِنَان  ( یعنی نیزے کی نوک )  نام رکھا۔[7]

 ( 6 ) ’’ مُسرِع ‘‘ نام رکھاحضرتِ سیِّدُنامُسْرِع کے پیدا ہونے پر ان کی والدہ انہیں لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کی : یا رسول اللہ ! اس بچے کے والد  ( حضرت یاسِر جُہَنی رضی اللہ عنہ  ) اسلامی لشکر کے ساتھ گئے ہوئے ہیں ،   آپ اس کا نام رکھ دیجئے ،   حضورِ اقدس نے بچّے کو لیا ،   اس پر ہاتھ پھیرا اور دُعا دی : اے اللہ ! ان کے مَردوں کو کثرت عطا فرما ،   ان کے گناہوں کو کم تَر فرما ،   ان کو کسی کا محتاج نہ کر ،   پھر فرمایا : میں نے اس کا نام مُسرِع  ( جلدی کرنے والا ) رکھا ہے اس نے اسلام میں جلدی کی ہے۔[8]

 ( 7 )  ’’ یحییٰ  ‘‘ نام رکھاجب حضرت یحییٰ بن خَلَّاد رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور بارگاہِ اقدس میں لائے گئے ،   آپ نے کھجور چبا کر گھٹی دی اور فرمایا : میں اس کا وہ نام رکھوں گاجو حضرت یحییٰ بن زکریا  ( علیہما السلام ) کے بعد کسی کا نہیں رکھا گیا ،   پھر آپ نے ان کا نام یحییٰ رکھا۔[9]

 ( 8 ) ”مریم“ نام عطا فرمایاحضرت سیِّدُناابو مریم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسولَ اللہ ! آج رات میرے ہاں بچی کی ولادت ہوئی ہے ،   آپ نے فرمایا : آج رات مجھ پر سورۂ مریم نازل ہوئی ہے ،   پھر آپ نے میری بیٹی کا نام مریم رکھ دیا اور میری کنیت ’’ ابو مریم“ رکھی۔[10]

حضورِ اکرم نے مختلف وجوہات سے نام تبدیل بھی فرمائے

بہت سے ایسے صحابہ بھی تھے جن کا پرانا نام کچھ اور تھا مگر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس نام کو کسی اور نام سے تبدیل فرمادیا جس کی عمومی وجہ ام ُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ  رضی اللہ عنہا نے یہ بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم برے نام کو  ( اچھے نام سے  ) تبدیل کر دیا کرتے تھے۔[11]  البتہ کبھی کسی اور وجہ سے بھی تبدیل فرمادیا کرتے تھے۔

برے نام کا سائیڈ ایفیکٹ حضرت سعید بن مُسَیَّب  رضی اللہ عنہ نے اپنے دادا کے بارے میں بیان کیا کہ وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے ؟   عرض کی میرا نام حَزن ہے  ( اس کا مطلب ہے سخت )  آپ علیہ السّلام نے فرمایا : بلکہ تمہارا نام سَہل ہے۔ عرض کی کہ میرے والد نے میرا جو نام رکھا میں اسے تبدیل نہیں کروں گا۔ حضرت سعید بن مسیب بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں سخت مزاجی و اَکھڑ پن رہا۔  [12]

آئیے چند وہ روایات بھی ملاحظہ کیجئے جن میں نام کو کسی اچھے نام سے بدل دینے کا تذکرہ ہے۔

عبدِ شمس کی جگہ عبدالرّحمٰن نام رکھا حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : زمانۂ جاہلیت میں میرانام عبدِشَمْس  ( سُورج کا بندہ )  تھا پھر حضورِ اکرم نے میرا نام عبدُالرّحمٰن رکھا۔[13]

نام بدل کر مُنذِر نام رکھا حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابو اُسید رضی اللہ عنہ سے ان کے نومولو بچے کے بارے میں پوچھا کہ اس بچے کا نام کیا ہے ؟   عرض کی کہ فلاں ہے ،   آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس کا نام مُنذِر ہے ،   تو اس دن سے ان کا نام مُنذِر پڑ گیا۔[14]

بَرّہ کی جگہ زینب نام رکھاامُّ المومنین حضرت زینب بنتِ جحش اور حضرت زينب بنتِ ابو سلمہ  رضی اللہ عنہما دونوں ہی کا نام برّہ تھا  ( جس کا مطلب ہے ” نیک “ ) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بدل کر زینب رکھ دیا۔  [15]

بَرّہ کے بجائے جُویریہ نام رکھاحضرت ایسے ہی اُمُّ المؤمنین حضرت جُوَیریہ  رضی اللہ عنہا کا نام بھی بَرّہ تھا ،   آپ علیہ السّلام نے بدل کر جُویریہ رکھ دیا  ( چونکہ بَرّۃ کا مطلب ہے نیکی )  تو آپ علیہ السّلام کو یہ کہا جانا ناپسند تھا کہ نیکی کے پاس سے چلا گیا۔

عاصیہ نام بدل کر جمیلہ رکھاحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ  ( گناہ گار )  سے بدل کر آپ علیہ السّلام نے جمیلہ رکھ دیا۔[16]

عاصی کے بجائے مطیع نام رکھ دیا حضرت مطیع بن اَسْوَد کا نام عاصی  ( گناہ گار )  تھا آپ علیہ السّلام نے مطیع رکھ دیا۔[17]

تم ’’ ابوراشد عبدالرّحمٰن  ‘‘ ہوحضرت ابو راشد عبدُ الرحمن رضی اللہ عنہ 100 افراد کے وفد کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضری کے لئے آئے تھے اور اسلام سے مشرّف ہوئے ،   کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے پہلے مجھے رسولُ اللہ کے پاس بھیجا تاکہ میں انہیں آکر احوال بتاؤں ،   رسولُ اللہ کے پوچھنے پر جب میں نے اپنا نام ابو معاویہ عَبْدُ اللَّاتِ وَ الْعُزّٰیبتایا تو آپ نے فرمایا : بلکہ تم ’’ ابو راشِد عبدُالرحمٰن ‘‘ ہو ،   آپ نے میری عزت افزائی فرمائی ،   مجھے پہلو میں بٹھایا ،   اپنی چادر پہنائی اور عصا عطا فرمایا ،   میں نے اور میرے غلام سرحان نے وہیں اسلام قبول کرلیا ،   جسے رسولُ اللہ کے کہنے پر میں نے اسی وقت غلامی سے آزاد بھی کردیا۔  [18]

عزیز کی جگہ عبدُالرحمٰن نامحضرت عبدُ الرحمٰن بِن اَبُوسَبْرَہ کا نام عَزِیز تھا  ( یہ اللہ پاک کے صفاتی ناموں میں سے ہے ) حضورِ اکرم نے عبدُ الرّحمٰن ‘‘ رکھا اور فرمایا سب سے اچھے نام عبدُ اللہ ،   عبدُالرّحمٰن اور حارِث ہیں۔[19]

”جبّار“ نام تبدیل کرکے ’’ عبدالجبار ‘‘ رکھا عبدُ الجبّار بن حارث رضی اللہ عنہ کا سابقہ نام جبّار تھا آپ علیہ السّلام نے تبدیل کرتے ہوئے فرمایا : تم ’’ عَبْدُ الْجَبَّار“ ہو۔[20] ایسے ہی عبدُ العُزّٰی نام کو عبدُ الرّحمٰن سے اور قیّوم کو عبدُ القیّوم سے تبدیل فرمایا۔[21]

حضورِ اکرم نے کُنْیَتیں بھی عطا فرمائیں

ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جس طرح بہت سے صحابہ کا نام رکھا اسی طرح کئی خوش نصیبوں کو کنیت بھی عطا فرمائی ،   آئیے اس کے بارے میں چند روایات ملاحظہ کیجئے :

 ( 1 ) تم ابو صُفرَہ ہو : بارگاہِ رسالت میں وقتاًفوقتاً بہت سے نمائندہ گروہ جنہیں وفد بھی کہا جاتا ہے آتے رہتے تھے ،   ایسے ہی ایک بار ایک وفد آیا جو وفد ابو صفرہ کے نام سے مشہور ہوا ،   اس کا قصہ یہ ہے کہ اس میں ایک لمبے ڈیل ڈول والا ،   خوبصورت ،   نفیس و نکھری گفتگو کرنے والا نوجوان بھی تھا جو جبہ پہنے ہوئے تھا ،   وہ جبہ اس کے پیچھے دو ہاتھ تک زمین پر گھسٹتا جارہا تھا ،   رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس کے حسن و جمال اور خدو خال پر تعجب ہوا تو پوچھا کہ تم کون ہو ؟   عرض کی میں قاطع بن سارق بن ظالم ہوں ،   وہ بادشاہ میرے آباء و اجداد میں سے ہے جو لوگوں سے ان کی کشتیاں زبردستی چھین لیا کرتا تھا  ( جس کا ذکر قراٰن میں حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعےمیں کیا گیا ہے )  میں شہزادہ ہوں۔ رسولِ کریم نے فرمایا کہ خود سے سارق  ( یعنی چور ) و ظالم جیسے نام دور کرو اب سے تم ابو صفرہ ہو ،   تو انہوں نے اسی وقت کلمۂ شہادت پڑھ لیا اور عرض کرنے لگے کہ میرے 18 بیٹے ہیں اور آخر میں مجھے بیٹی کی دولت سے نوازا گیا ہے میں اس کا نام صفرہ رکھتا ہوں ،   آپ نے فرمایا : اب تو تم حقیقت میں ابو صفرہ  ( یعنی صفرہ کے باپ ) ہو۔[22]

 ( 2 ) جب حضرت سَہْل رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور انہیں بارگاہِ رسالت میں پیش کرکے نام رکھنے کی گزارش کی گئی تو آپ علیہ السّلام نے سَہْل نام رکھا اور اَبُو اُمَامہ کنیت عطا فرمائی۔[23]

 ( 3 ) حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ”ابو ہریرہ“ کنیت بھی بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عطا ہوئی جو ان کے نام پرایسی غالب آئی گویا ابوہریرہ کے علاوہ ان کا کوئی نام ہی نہیں۔[24]  آپ اپنے نام ”عبدُ الرّحمٰن“کے بجائے اسی کنیت سے مشہور ہیں ۔

 ( 4 ) یونہی آپ علیہ السّلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اَبُوتُرَاب کہہ کر پکارا تو انہیں یہ کنیت اتنی عزیز ہوگئی کہ جب انہیں اَبُوتُرَاب کہہ کر پکارا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔[25]

 ( 5 ) آپ علیہ السّلام کی اپنی شہزادی حضرت رُقَیَّہ  رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹے کی ولادت ہونے پر بچّے کا نام عبدُ اللہ رکھا اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ مقرر فرمائی۔[26]

 ( 6 ) حضرت خَبَّاب بن اَرَت کے بیٹے کا نام عبدُ اللہ رکھا تو اسی وقت انہیں اَبُو عبد اللہ کنیت بھی عطا فرمائی۔[27]

اولاد نہ ہونے کی صورت میں بھی کُنْیَت رکھنااگرچہ معروف یہی ہے کہ جس کی اولاد ہو وہی کنیت رکھتا ہے ،   مگر کنیت رکھنے کے لئے نہ تو اولاد ہونا ضروری ہے ،   نہ ہی شادی شُدہ ہونا ضروری ہے بلکہ کنیت تو بچّے کی بھی رکھی جاسکتی ہے جیساکہ پیچھے ذکر کیا گیا کہ حضرت سَہْل کے بچپن میں حضورِ اکرم نے ان کا نام بھی رکھا اور کنیت بھی اسی طرح آپ علیہ السّلام نے اولاد ہونے سے پہلے ہی حضرت صُہَیْب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو یحییٰ[28]اور عبدُ اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبدُ الرحمٰن[29] اور حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کی کنیت اُمِّ عبدُ اللہ رکھی۔[30] معلوم ہواکہ عورتیں بھی کُنیت رکھ یا رکھوا سکتی ہیں۔

کنیت شریعت کے مطابق ہونی چاہئے ناموں کی طرح کنیت میں بھی یہ لحاظ رکھنا چاہئے کہ اس کا معنی اچھا ہو اور وہ شرعاً دُرست بھی ہو ،   اگر کوئی ایسی کُنیت رکھ چکا ہو جس کا معنی اچھا نہ ہو یا وہ شرعاً دُرست نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کسی صاحبِ علم بُزرگ سے تبدیل کروا لے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ناموں کی طرح بعضوں کی کنیت بھی تبدیل فرمائی جیساکہ حضرت سیِّدُناہانی  رضی اللہ عنہا پنی قوم میں ابو الحَکَم کی کنیت سے پکارے جاتے تھے ،  رسول اکرم نے انہیں بلوا کر فرمایا : بےشک اللہ ہی حَکَمْ ( فیصلہ فرمانے والا )  ہے اور حُکْم کا اختیار اسی کوہے ،   پھر انہیں ان کے بڑے بیٹے کے نام پر ابُوشُرَیْح کی کنیت عطا فرمائی۔[31]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ،   ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] اسدالغابۃ ،   5 / 101 ،   رقم : 4738ملخصاً

[2] الاصابۃ ،   5 / 21 ،   رقم : 6207ملخصاً

[3] مسلم ،   ص 912 ،   حدیث : 5612ملخصاً

[4] مسلم ،  ص 912 ،   حدیث : 5615

[5] طبقات ابن سعد ،  8 / 325

[6] مسند امام احمد ،  7 / 246 ،   حدیث : 20093 ملخصاً

[7] الاستیعاب ،  2 / 217

[8] اسدالغابۃ ،  5 / 164 ملخصاً-الاصابۃ ،  6 / 501 ملخصاً

[9] اسدالغابۃ ،  5 / 486

[10] اسدالغابۃ ،   6 / 300

[11] ترمذی ،   4 / 382 ،  حدیث : 2848

[12] بخاری ،   4 / 152 ،   حدیث : 6193

[13] اسدالغابۃ ،  6 / 337

[14] بخاری ،   4 / 152 ،   حدیث : 6191 ملخصاً

[15] فتح الباری ،   11 / 486 ،   تحت الحدیث : 6192 ملخصاً

[16] مسلم ،   ص 910 ،  حدیث : 5605ملخصاً

[17] مسلم ،  ص761 ،  حدیث : 4628ملخصاً

[18] جمع الجوامع ،  15 / 551 ،   حدیث : 15102ملخصاً

[19] اسدالغابۃ ،  3 / 467 ملخصاً

[20] اسدالغابۃ ،   1 / 387

[21] اسدالغابۃ ،  3 / 525

[22] سبل الہدی و الرشاد ،   6 / 352

[23] طبقات ابن سعد ،  8 / 324

[24] عمدۃ القاری ،  12 / 354 ،  تحت الحدیث : 4393ملخصاً

[25] بخاری ،   4 / 155 ،   حدیث : 6204

[26] اسد الغابۃ ،  3 / 341

[27] الاصابۃ ،   4 / 64ملخصاً

[28] ابن ماجہ ،   4 / 220 ،   حدیث : 3738 ماخوذاً

[29] عمدۃ القاری ،   15 / 323

[30] ابن ماجہ ،   4 / 221حدیث : 3739

[31] ابوداود ،  4 / 376 ،  حدیث : 4955


Share

Articles

Comments


Security Code