مطالعۂ سیرت کی  اہمیت  و افادیت موجودہ زمانے میں

مطالعہ سیرت کی اہمیت و افادیت موجودہ زمانے میں

*مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء

ایک مسلمان کے لیے سیرتِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مطالعہ کی ضرورت و اہمیت ”اَظْہَر مِن الشمس“ ہے ، کیونکہ مسلمان کے لیے سیرت کا مطالعہ فقط ایک علمی مشغلہ نہیں ، بلکہ اہم دینی ضرورت ہے ، کیونکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مبارکہ دین کا بنیادی ماخذ ہے اور عملی زندگی کے لیے ایک جامع ترین نمونہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی انسان کی سیرت اتنی جامع نہیں اور نہ ہی اتنی مکمل انداز میں دستیاب ہے ، جس قدر کاملیت و جامعیت کے ساتھ سیرتِ نبوی موجود ہے۔ تاریخ انسانی میں یہ امتیاز صرف نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس کو حاصل ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انفرادی ، معاشرتی اور قومی زندگی کی تفصیلات محفوظ اور اہلِ ایمان کے لیے مینارہِ نور کی صورت میں موجود ہیں ، جس کے اسباب یہ ہیں کہ مسلمانوں کو آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عشق و محبت کی وجہ سے آپ کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ہمیشہ ہی وابستگی رکھنی اور وارفتگی کا اظہار کرنا تھا نیز سیرت کے پاکیزہ واقعات سے رہتی دنیا تک مسلمانوں بلکہ جملہ اقوامِ عالم نے ہدایت کی روشنی حاصل کرنی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیبہ کی حفاظت کا ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی زندگی کا ہر مرحلہ روشن تصویر کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے۔ دورِ جدید میں بھی سیرتِ نبوی کا مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا شروع کے زمانوں میں تھا بلکہ اب تو مزید جہتوں سے بھی اس پر کام کرنے کی حاجت بڑھ چکی ہے۔ فی زمانہ اس مطالعہ کی اہمیت کے چند پہلو بیان کئے جاتے ہیں :

محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تقاضا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت ، ایمان کی روح ہے ، اسی سے ایمان میں حلاوت ، قلب میں حرارت اور روح میں سوز و ساز ہے۔ محبت کی ایک علامت اور تقاضا ، محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہے کہ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے ، اُس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔  ( کنزالعمال ، 1 / 425 ، ط : مؤسسۃ الرسالۃ )  اسی محبت کے تقاضے کی وجہ سے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان ایک دوسرے سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احوال و صفات پوچھتے اور یہی عمل تابعین کا رہا اور سیرت بلکہ حدیث کی کتابیں لکھنے ، پڑھنے ، پڑھانے والے علماء و محدثین کے احوال سے یہی واضح ہوتا ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ہی احادیث و احوالِ نبوی کی جمع و تدوین اور تبویب و ترتیب کی طرف انہیں مائل کرتی تھی اور ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لکھنے ، پڑھنے میں گزرے ہوئے وقت کو وہ اپنا حاصلِ زندگی سمجھتے تھے اور یہ کیفیت کیوں نہ ہو کہ

جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں

حُبِّ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بڑھانے کا ذریعہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ، مدارِ ایمان ہے۔ اس محبت کی قوت و شدت ہی بارگاہِ خدا میں مراتبِ سعادت اور فرقِ مدارج کی بنیاد ہے۔ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے دل میں رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ہر شے سے بڑھ کر ہو حتی کہ ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ ، چنانچہ خود حبیبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (  بخاری ، 1 / 17 ، ط : بیروت )  اور محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حصول اور اس میں اضافے کا ایک بہترین ذریعہ سیرتِ مبارکہ کے مطالعہ کو زندگی کا معمول بنا لینا ہے۔ انسان کسی ہستی کے جس قدر عمدہ اوصاف ، عالی شان کمال ، منفرد خصوصیات ، خوبصورت اعمال اور پاکیزگیِ احوال پر مطلع ہوتا ہے ، اسی قدر اس کے دل میں اُس باکمال ہستی کی محبت بڑھ جاتی ہے اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کے مطالعہ میں یہ معاملہ اپنی انتہائی بلندی کو پہنچا ہوا ہے اور یہی آج تک مشاہدہ ہے کیونکہ سیرتِ طیبہ میں کمال دَر کمال ، جمال دَر جمال اور حسن دَر حسن ہے ، تو جو کوئی ، بےمثل آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احوالِ کریمہ کا جتنا مطالعہ کرے گا ، اسی قدر محبت و عشقِ رسول کی منازل طے کرتا جائے گا۔

فہمِ قرآن ، مطالعہِ سیرت پر موقوف قرآنِ کریم مسلمانوں کے لیے آئینِ حیات ، محورِ دین ، منبعِ شریعت ، مرکزِ علوم ، سرچشمہِ حکمتِ الٰہی اور فلاحِ کامل کا نسخہ ہے۔

آں کتابِ زندہ ، قرآنِ حکیم

حکمتِ او لایزال است و قدیم

نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات

بے ثبات از قوتش گیرد ثبات

”ترجمہ : وہ کتابِ زندہ جسے قرآنِ حکیم کہتے ہیں ، اُس کی حکمت بھری باتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں او رہمیشہ سے ہیں۔ وہ قرآن ، زندگی کو وجود میں لانے والے بھیدوں کا نسخہ ہے۔ گرتے پڑتے افراد و اقوام بھی قرآن کی قوتِ فیضان سے سنبھل جاتے ہیں۔“ لیکن قرآن سے یہ عظیم فیضان پانے کے لیے اس کا سمجھنا ضروری ہے جس کے لیے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا بغور مطالعہ سب سے زیادہ نفع بخش ہے ، کیونکہ قرآن کے آفاقی و جاوداں ، حیات بخش پیغام کی تشریح سنت و سیرت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اَخلاق تو قرآن تھا۔ ( مسند احمد ، 43 / 15 ، ط : مؤسسۃ الرسالۃ )  یعنی سیرتِ نبوی قرآنِ کریم کی عملی تفسیر اور الفاظِ قرآنی کی عملی ترجمانی و تعبیر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا قرآنِ کریم میں حکم دیا ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر کامل انداز میں عمل کر کے دکھایا۔ مقاصدِ نزولِ قرآن کا کماحقہ ظہور بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اعمال و احوال سے ہوتاہے اور اصول و احکامِ قرآن کی تفصیل و تبیین و تشریح بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و افعال ہی سے ہوتی ہے جسے عام الفاظ میں حدیث ، سنت اور سیرت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ قرآنِ مجید ، اصول کی کتاب ہے کہ مرکزی اصول بیان کردیا جیسے خدا تم پر آسانی چاہتا ہے ، تنگی نہیں چاہتا ، لیکن اصول کا انطباق مفصل طور پر بیان نہیں کیا گیا ، یونہی قرآن میں بنیادی احکام تو موجود ہیں ، لیکن اُن کی تفصیلا ت نہیں ہیں ، مثلاً نماز قائم کرنے ، روزہ رکھنے ، حج کرنے ، زکوٰۃ دینے اور اِسی طرح دیگر اجمالی احکام تو بیان کیے گئے ہیں ، لیکن اُن پر عمل درآمد کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قرآن مجید میں بیان کردہ اُصول و قواعد اور احکام و ہدایات کو اپنے فرامین اور عمل سے واضح کردیا کہ نماز کی ترتیب و کیفیت و وقت کیا ہے ؟ افعالِ حج کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے ؟ قابلِ زکوٰۃ اموال کا تعیُّن اور اُن کی مقداریں کیا ہیں ؟ وغیرہا۔ قرآن پر عمل کے حکم کو بجالانے کے لیے سیرت کی طرف رجوع کئے بغیر گزارا نہیں اور مطالعہِ سیرت کے بغیر قرآنِ کریم سمجھنا نہایت دشوار ہے۔

فہمِ دین اور اطاعت و اتباعِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر عمل مطالعہِ سیرت پر موقوف قرآنِ حکیم میں ہے : ( اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ )  ترجمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا۔  ( پ6 ، المآئدۃ : 3 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  دینِ کامل کی اتباعِ کامِل کے لیے یقیناً کسی ہستیِ کامل کی حاجت تھی ، جس کی اَکمل و اَجمل ، اَرْفَع و اَنوَر ، اَزکٰی و اَطہر سیرت ، دینِ کامل کی کامل ترین تصویر پیش کرے تاکہ اسے آئیڈیل بنا کر دینِ کامل کو پوری طرح سمجھا اور اس پر عمل کیا جاسکے۔ یقیناً ایسی عظیم و کامل ہستی ، سید الاولین و الآخرین ، خاتم النبیٖن ، محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کی ہے ، جن کی زندگی کو خالقِ کائنات نے خوداُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ، بہترین نمونہ“ قرار دیا اور جن کے اخلاقِ حسنہ کو خود ”خُلُقِ عظیم“ کی سند عطا فرمائی۔ اس کے ساتھ قرآنِ مجید کا واضح حکم ہے :  ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ )  ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔  ( پ5 ، النسآء : 59 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)    اور فرمایا :  ( قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ )  ترجمہ : اے حبیب ! فرما دو کہ اے لوگو ! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ۔ ( پ3 ، اٰلِ عمرٰن : 31 )   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اللہ تعالیٰ نے حصولِ جنت ، محبتِ خداوندی اور قرب و رضائے الٰہی کو حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع کے ساتھ جوڑ دیا ، لہٰذا جو دنیاوی کامیابی اور اُخروی فلاح کا طلب گار ہے ، اُسے رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے احکامِ نبوی اور سنتِ مصطفوی کا علم ضروری ہے جس کا ذریعہ سیرت کا مطالعہ ہے۔

قلبی اصلاح اور روحانی کمالات و مقامات کے لیےمطالعہِ سیرت نفس کی پاکیزگی ، دل کی اصلاح ، روحانی فضائل ، اخلاقی بلندی اور عمدہ اخلاق ، انسان کےلئے اعلیٰ مقاصدِ حیات ہیں اور یہی خدا کے مطلوب انسان کی زندگی کا رَنگ ، ڈھنگ ہے۔ ایسی خوب صورت زندگی کے لیے ، سیرتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ، بہترین نمونہ“ ہے ، جیساکہ قرآن میں ہے :  ( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )  ترجمہ : بیشک تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔  ( پ21 ، الاحزاب : 21 )   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  ایمان کا مقام دل ہے اور باطنی کیفیات و ظاہری اعمال سے اس کے ثمرات کا ظہور ہوتا ہے۔ ایمان کیسا ہو ؟ کیفیاتِ ایمان کیسی ہوں ؟ قلبی احوال کیا ہوں ؟ خوف و امید ، غنائے قلب ، صبر وشکر ، توکل و تسلیم اور رضا بالقضاء کے مقامات پر فائز ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ اسی طرح عبادات میں حسنِ ادا ، معاملات میں اعتدال ، معاشرت میں حسنِ عمل ، اصحاب و احباب پر شفقت ، اہلِ خانہ سے مَوَدَّت ، عامہِ خلق پر رحمت کا طریقہ کیسا ہونا چاہئے ؟

کردار سازی اور اخلاقِ حسنہ کے لیے مطالعہِ سیرت بعثتِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک عظیم مقصد اعلیٰ اخلاق ، پسندیدہ عادات اور مہذب و باوقار رویوں کی تعلیم و ترویج ہے چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق یعنی مجھے اچھے اَخْلاق کی تکمیل کے لیے مَبعُوث کِیا گیا ہے۔ ( نوادر الاصول ، حدیث : 1425 )  اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمانہ ، اس قدر عمدہ ، دل نشین ، دلکش ، پسندیدہ اور عظیم تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی دی ، چنانچہ فرمایا :  ( وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( ۴ ) ) ترجمہ : اور بیشک تم یقینا ًعظیم اخلاق پر ہو۔ ( پ29 ، القلم : 4 )   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم محاسنِ اَخلاق کی تمام اطراف و جہات کے جامع تھے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حِلم و عَفْو ، رحم و کرم ، عدل و انصاف ، جود و سخا ، ایثار و قربانی ، مہمان نوازی ، ایفائے عہد ، حسنِ معاملہ ، نرم گفتاری ، ملنساری ، مساوات ، غمخواری ، سادگی ، تواضع اور حیاداری ایسے اخلاق و اوصاف کو اپنے عمل اور دوسروں کی تعلیم و تربیت سے مرتبہِ کمال تک پہنچایا۔ یہ تمام اخلاق انسان کے لیے باعثِ شرف ہیں اور ہر شخص کو انہیں اپنانا نہایت ضروری اور مفید ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حسن ان اخلاق کے اپنانے ہی پر منحصر ہے اور یہ بات واضح ہے کہ عمل کے لیے علم چاہیے اور علم کےلیے مفصل ، جامع اور عملی تعلیمات چاہئیں ، جن کے لیے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پاکیزہ سیرت و فرمودات سے زیادہ رہنمائی کہیں نہیں مل سکتی۔

بین الاقوامی سطح پر دعوتِ دینکے لیے مطالعہ ِسیرت کی اہمیت مسلمان کے لیے سیرتِ طیبہ کے مطالعہ کے لیے ایک اہم مُحرِّک اور مقصد یہ بھی ہے کہ عالَمی سطح پر اگر کسی نے دین اسلام کو پیش کرنا ہے جو حکمِ خدا اور مطلوبِ دین ہے تو رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تفصیلی تعارف کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ دینِ اسلام کی سب سے بڑی پہچان اور مرکزی ہستی ہی احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ اسلام کا تصور ذاتِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کے نزول میں بھی سیرت ہی کے واقعات ہیں اور خود قرآن کی تفسیر بھی سیرت ہی کی روشنی میں سمجھ آتی ہے اور اسلام کی تعلیمات بھی سیرت ہی کے گِرد گھومتی ہیں اور اسلام کا حسن بھی سیرت کے حسن ہی سے آشکار ہوتا ہے ، نیز انسانوں کے دل بھی مجرد تعلیمات سے زیادہ ، تعلیمات پیش کرنے والی ہستی اور اس کے کردار کی طرف جھکتے ہیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پاکیزہ زندگی کے عمدہ واقعات ، حکمت بھرے حالات ، روشن کردار ، لاجواب قیادت اور اعلیٰ کارناموں کا بیان غیروں کو اَپنا بنانے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر تبلیغِ اسلام کے لیے بہترین ذریعہ سیرت طیبہ کا بیان ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت ، فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code