تربیت اولاد کی نفسیات

انسان اور نفسیات

تربیتِ اولاد کی نفسیات

*ڈاکٹر زیرک عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2023

اولاد اللہ  پاک کی طرف سے ہمارے لئے ایک عظیم نعمت ہے اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ  پاک اس کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور آخرت میں بھی اس کی نجات کا ذریعہ۔

اولاد کے نیک بننے میں والدین کی تربیت کا بہت بڑا عمل دخل ہے جو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو اللہ  پاک ان کو اس کا صلہ ضرور عطا کرتا ہے۔ اولاد کی تربیت دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرنا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن آج کل کے دور میں اس کا فقدان ہے اکثر والدین اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بگڑ گئی ہے بات نہیں مانتی ، بدتمیز ہے ، صفائی ستھرائی کا لحاظ نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ۔

اولاد کی تربیت کیسے کی جائے ؟ اس کے بہترین راہنما اصول قراٰنِ پاک نے بیان کئے ہیں اور ماڈرن سائیکالوجی سے بھی ان اصولوں کی تائید ہوتی ہے مثلاً ایمان والوں کو نیک اعمال کی ترغیب دینے کے لئے اللہ  پاک نے جنت کی عالی شان نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور گناہ گاروں کو ان کے برے اعمال پر جہنم کی سخت سزاؤں کی وعید سنائی ہے اس اسلوب کو ہم ترغیب و ترھیب کا نام دیتے ہیں۔

تربیت کے میدان میں آج ماڈرن سائیکالوجی بھی اسی اسلوب کو اپنائے ہوئے ہے اچھا کام کرنے پر حوصلہ افزائی اور برا کام کرنے پر سزا۔ تربیت کے حوالے سے سائیکالوجی کی یہ ایک تھیوری ہے جس کو آپرینٹ کنڈیشننگ  ( Operant Conditioning )  کا نام دیا گیا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق اچھا کام کرنے والے کی اگر حوصلہ افزائی  ( Reward )  کی جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی یہ اچھائی والی عادت پختہ ہوجائے گی۔ اور ناپسندیدہ کام کرنے والے کی اگر سرزنش  ( Sanction )  کی جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کی یہ بری عادت چھوٹ جائے گی۔

اگر تربیت کا یہ اسلوب والدین اپنی اولاد کے لئے صحیح معنوں میں اپنا لیں تو اِن شآءَ اللہ ان کی اولاد ہر لحاظ سے بہتر ہو سکتی ہے۔

ترغیب و ترھیب کے اس اسلوب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہم کس طرح اپنے بچّوں کی تربیت کر سکتے ہیں ؟ اس ضمن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنے سے اِن شآءَ اللہ اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

تربیتِ اولاد کے بہترین اصول : ( 1 ) جو کچھ بچے کو سکھانا چاہتے ہیں وہ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہو اس کے لئے والدین کو دین کا بنیادی علم حاصل ہونا بہت ضروری ہے ( 2 ) اچھی نیت کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اولاد کی تربیت میں ہماری بنیادی نیت اللہ  پاک کی رضا و خوشنودی ہونی چاہئے  ( 3 ) گھر یا خاندان کے تمام افراد کا ان اصولوں پر ایک جیسا عمل کرنا ضروری ہے اگر کوئی ایک فرد بھی بے جا لاڈ کرے گا اور بچّے کی غلط باتوں پر اس کی سرزنش نہیں کرے گا تو اس سے بچے کے بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور بڑوں کے بھی آپس میں تعلقات خراب رہتے ہیں  ( 4 ) بچے کی عقل اور سمجھ کے مطابق ہر بات کی پہلے وضاحت کریں پہلے بچے کو بتائیں کہ فلاں کام کرنے کا صحیح طریقہ یوں ہے اور غلط طریقہ یوں مثلاً چھوٹے بچے کو کہنا کہ کھانا سیدھے ہاتھ سے کھایا جاتا ہے الٹے ہاتھ سے نہیں۔ جب سیدھا ہاتھ بولیں تو بچّے کے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کریں تا کہ اسے معلوم ہو کہ یہ سیدھا ہاتھ ہے  ( 5 ) جوں جوں بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں سوال اس سمجھ کی چابی ہے والدین کو چاہئے کہ جو بھی تربیت کا نیا اصول بچوں پر لاگو کرنا ہو اس کو اچھی طرح سمجھایا جائے اس اصول پر بچہ جو بھی سوال کرے اس کا تسلی بخش جواب دیا جائے مثلاً تین یا چار سال کا بچہ پوچھ سکتا ہے کہ ہم سیدھے ہاتھ سے ہی کیوں کھاتے ہیں ؟ تو والدین کو اس کا جواب اچھے انداز میں پیش کرنا ہوگا۔ ورنہ جو اصول بچہ مکمل طور پر سمجھے گا ہی نہیں تو ایسے اصول پر وہ شوق اور لگن کے ساتھ عمل نہیں کرے گا  ( 6 ) جب بھی بچہ مطلوبہ اصول پر عمل کرے تو اس عمل کرنے پر اس کو ہر بار Reward ضرور دیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ چھوٹی عمر میں چند بار  Reward ملنے پر کام کرنے کی پختہ عادت بن جاتی ہے لہٰذا جتنی چھوٹی عمر میں بچے کی تربیت شروع ہو اتنا آسان ہوتا ہے  ( 7 ) اسی طرح اگر بچہ مطلوبہ اصول پر عمل نہیں کرتا تو اس پر اس کو Sanction ضرور ملنی چاہئے اور ہر بار ملنی چاہئے ایسا کرنے سے بچہ جلد سیکھ جائے گا وگرنہ کبھی Sanction کرنا اور کبھی نہ کرنا بچے کی تربیت میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے  ( 8 ) والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچے کی پسند اور ناپسند کو اچھی طرح جانتے ہوں۔ بس یہی پسند کے کام بچے کا Reward بن سکتا ہے اور ناپسندیدہ کام Sanction بن سکتی ہے۔ اس میں بچے کی عمر کا بہت عمل دخل ہے مثلاً ایک سال کا بچہ کسی مخصوص کھلونے کو پسند کرتا ہے تو ایسے بچے کے لئے اس کھلونے کا مل جانا ہی بہترین Reward ہے اور اگر ماں اپنا منہ دوسری طرف کر لے تو بچّہ اس پر ناخوش ہوتا ہے بچے کے کسی غیر مطلوبہ کام کرنے پر ماں کا دوسری طرف منہ پھیر لینا اس ایک سال کے بچّے کو سکھا دے گا کہ اس کو یہ کام نہیں کرنا  ( 9 ) جوں جوں بچّے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی عقل و شعور میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پانچ یا چھ سال سے بڑے بچّوں کی تربیت کا انداز مختلف ہونا چاہئے۔ ان کے ساتھ ہر نیا اصول ڈائیلاگ کے ذریعے طے ہونا چاہئے جس میں بچے کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ اچھا کام کرنے پر تحفہ کیا ہوگا اور غلط کام کرنے پر سرزنش کون سی ؟ اس پر بھی بچّوں سے رائے ضرور لیں پھر جو طے پائے اس کو لکھ کر نمایاں جگہ پر لگا دیا جائے ( 10 ) تحریر نمایاں جگہ لگانے کے دو فوائد ہیں  ایک تو یہ کہ روزانہ کی بنیادوں پر بچے کو اصول دکھا کر ان کی یاد دہانی کرتے رہیں کیونکہ بچے بعض دفعہ بھول بھی جاتے ہیں اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ غلط کام کرنے پر جب بھی سرزنش کریں تو تحریر پر لکھی ہوئی طے شدہ سرزنش بچے کو ضرور دکھائیں اور بچے کو بتائیں کہ اس سرزنش پر بچے نے معاہدہ کیا تھا۔ اس طرح جب بچے کو سزا ملے گی تو وہ والدین پر غصہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو کوسے گا اور آئندہ ایسا کام کرنے سے اجتناب کرے گا  ( 11 ) والدین سرزنش کے وقت غصے کا اظہار نہ کریں۔ ورنہ یہ شہد میں سرکہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ بہترین سرزنش وہ ہے جس میں تحمل کا مظاہرہ ہو تاکہ بچہ سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ اس میں شریعت کی تعلیمات کا علم ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ بعض صورتوں میں ہمیں غصہ کرنے کے حکم پر عمل کرنا ہو گا  ( 12 ) ہر ممکن کوشش کریں کہ بچے کو Reward مطلوبہ کام کرنے کے بعد اور فوراً دیں۔ کیونکہ بچے کو اگر Reward پہلے مل گیا تو وہ مطلوبہ کام نہیں کرے گا اور اگر Reward دینے میں تاخیر ہوگئی تو اس سے بچّے کا دل ٹوٹ جائے گا اور ایسا ہونے پر تربیت کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں  ( 13 ) جو بھی Reward طے پائے وہ آسان اور سستا ہونا چاہئے۔ مہنگے تحفے دینا کوئی معنی نہیں رکھتا ورنہ بچہ بگڑ بھی سکتا ہے اور آپ کے لئے مالی مشکلات بھی پیدا ہوسکتی ہیں ( 14 ) اپنے بزرگوں سے راہنمائی لیتے رہیں کیونکہ بھلائی بزرگوں کے ساتھ ہی ہے۔

آئیے اب آخر میں Rewards اور Sanctions کی بہترین مثالیں بھی سیکھ لیتے ہیں۔

بچے کی حوصلہ افزائی  ( Reward )  کی مثالیں : * بچے کی طرف توجہ سے دیکھنا * بچے کی طرف دیکھ کر مسکرانا * بچے کو پیار کرنا اور سینے سے لگانا * شاباش دیتے ہوئے بچے کی پیٹھ تھپکنا * بچے کی بات توجہ سے سننا اور اس کے سوالات کے جوابات دینا * بچے کے ساتھ کھیلنا * اس کی مثبت چیزوں کی تعریف کرتے رہنا * کھانے کی پسندیدہ چیز  ( جو مضر صحت نہ ہو )  دینا * پسند کا کھلوناخرید کر دینا۔

بچے کی سرزنش  ( Sanction )  کی مثالیں : * خاموشی کے ساتھ روٹھ کر ناراضی کا اظہار کرنا * چہرے کو دوسری طرف پھیر لینا * بچے کو بتانا کہ آپ اس سے فلاں کام کی وجہ سے ناراض ہیں * اسکرین ٹائم کو کم کردینا * پسندیدہ کھیل سے کچھ دیر کے لئے روک دینا * دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کر دینا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ماہر نفسیات ، U.K


Share

Articles

Comments


Security Code