وضو کے فرائض

وضو کے فرائض

اﷲ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ (پ۶، المآئدۃ: ۶ )

یعنی اے ایمان والو جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو (اور وضو نہ ہو) تو اپنے مونھ اور کُہنیوں تک ہاتھوں کو دھوؤ اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھوؤ۔ (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۲۸۴)

اَحکامِ فِقہی:

وہ آیہ کریمہ جو اوپر لکھی گئی اس سے یہ ثابت کہ وُضو میں چار فرض ہیں:

(۱) مونھ دھونا

(۲) کُہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا دھونا

(۳) سر کا مسح کرنا

(۴) ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں کا دھونا

فائدہ: کسی عُضْوْ کے دھونے کے یہ معنی ہیں کہ اس عُضْوْ کے ہرحصہ پر کم سے کم دو بوند پانی بہ جائے۔ بھیگ جانے یا تیل کی طرح پانی چُپَڑلینے یا ایک آدھ بوند بہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے نہ اس سے وُضو یا غسل ادا ہو[1] ، اس امر کا لحاظ بہت ضروری ہے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نمازیں اکارت جاتی ہیں۔ بدن میں بعض جگہیں ایسی ہیں کہ جب تک ان کاخاص خیال نہ کیا جائے ان پر پانی نہ بہے گا جس کی تشریح ہر عُضْوْ میں بیان کی جائے گی ۔کسی جگہ َموضَعِ حَدَث پر تری پہنچنے کو مسح کہتے ہیں۔

۱۔ مونھ دھونا: شروعِ پیشانی سے (یعنی جہاں سے بال جمنے کی انتہا ہو) ٹھوڑی [2] تک طول میں اور عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک مونھ ہے اس حد کے اندر جِلد کے ہر حصہ پر ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے۔ [3]

مسئلہ ۱: جس کے سر کے اگلے حصہ کے بال گرگئے یا جَمے نہیں اس پر وہیں تک مونھ دھونا فرض ہے جہاں تک عادۃً بال ہوتے ہیں اور اگر عادۃً جہاں تک بال ہوتے ہیں اس سے نیچے تک کسی کے بال جمے تو ان زائد بالوں کا جڑ تک دھونا فرض ہے۔ [4]

مسئلہ ۲: مونچھوں یا بھووں یا بچی [5] کے بال گھنے ہوں کہ کھال باِلکل نہ دکھائی دے تو جِلد کا دھونا فرض نہیں بالوں کا دھونا فرض ہے اور اگر ان جگہوں کے بال گھنے نہ ہوں تو جِلد کا دھونا بھی فرض ہے۔ [6]

مسئلہ ۳: اگر مونچھیں بڑھ کر لَبوں کو چھپالیں تو اگرچہ گھنی ہوں،مونچھیں ہٹا کر لَب کا دھونا فرض ہے۔ [7]

مسئلہ ۴: داڑھی کے بال اگر گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے اور اگر گھنے ہوں تو گلے کی طرف دبانے سے جس قدر چہرے کے گردے میں آئیں ان کا دھونا فرض ہے اور جڑوں کا دھونا فرض نہیں اور جو حلقے سے نیچے ہوں ان کا دھونا ضرور نہیں اور اگر کچھ حصہ میں گھنے ہوں اور کچھ چَھدرے، تو جہاں گھنے ہوں وہاں بال اور جہاں چھدرے ہیں اس جگہ جلد کا دھونا فرض ہے۔[8]

مسئلہ ۵: لَبوں کا وہ حصہ جو عادۃً لب بند کرنے کے بعد ظاہر رہتا ہے ،اس کا دھونا فرض ہے تو اگر کوئی خوب زور سے لب بند کرلے کہ ا س میں کاکچھ حصہ چُھپ گیا کہ اس پر پانی نہ پہنچا، نہ کُلّی کی کہ دُھل جاتا تو وُضو نہ ہوا ،ہاں وہ حصہ جو عادۃً مونھ بند کرنے میں ظاہر نہیں ہوتا اس کا دھونا فرض نہیں۔ [9]

مسئلہ ۶: رُخسار اور کان کے بیچ میں جو جگہ ہے جسے کنپٹی کہتے ہیں اس کا دھونا فرض ہے ہاں اس حصہ میں جتنی جگہ داڑھی کے گھنے بال ہوں وہاں بالوں کا اور جہاں بال نہ ہوں یا گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے۔ [10]

مسئلہ ۷: نَتھ کا سوراخ اگر بند نہ ہو تو اس میں پانی بہانا فرض ہے اگر تنگ ہو تو پانی ڈالنے میں نتھ کو حرکت دے ورنہ ضرو ر ی نہیں۔[11]

مسئلہ ۸: آنکھوں کے ڈھیلے اور پپوٹوں کی اندرونی سَطح کا دھوناکچھ درکار نہیں بلکہ نہ چاہیئے کہ مُضر ہے۔[12]

مسئلہ ۹: مونھ دھوتے وقت آنکھیں زور سے مِیچ لِیں کہ پَلک کے مُتّصل ایک خَفیف سی تحریر بند ہوگئی اور اس پر پانی نہ بہا اور وہ عادۃً بند کرنے سے ظاہر رہتی ہو تو وُضو ہو جائیگا مگر ایسا کرنا نہیں چاہیئے اور اگر کچھ زیادہ دُھلنے سے رہ گیا تو وُضو نہ ہو گا۔ [13]

مسئلہ ۱۰: آنکھ کے کوئے[14] پر پانی بہانا فرض ہے مگر سرمہ کا جرم کوئے یا پَلک میں رہ گیا اور وُضو کرلیا اور اِطلاع نہ ہوئی اور نماز پڑھ لی تو حَرج نہیں نماز ہوگئی، وُضو بھی ہو گیا اور اگر معلوم ہے تو اسے چُھڑا کر پانی بہانا ضرور ہے۔

مسئلہ ۱۱: پَلک کا ہر بال پُورا دھونا فرض ہے اگر اس میں کیچڑ وغیرہ کوئی سَخْت چیز جم گئی ہو تو چُھڑا نا فرض ہے۔ [15]

۲۔ہاتھ دھونا: اس حُکْم میں کہنیاں بھی داخِل ہیں۔ [16]

مسئلہ ۱۲: اگر کُہنیوں سے ناخن تک کوئی جگہ ذَرّہ بھر بھی دھلنے سے رہ جائے گی وُضو نہ ہو گا۔ [17]

مسئلہ ۱۳: ہر قسم کے جائز ، ناجائز گہنے ، چَھلّے، انگوٹھیاں، پُہنچیاں [18] ، کنگن، کانچ، لاکھ وغیرہ کی چوڑیاں، ریشم کے لچھّے وغیرہ اگر اتنے تنگ ہوں کہ نیچے پانی نہ بَہے تو اُتار کر دھونا فرض ہے اور اگرصرف ہِلا کر دھونے سے پانی بہ جاتا ہو تو حرکت دینا ضرور ی ہے اور اگر ڈِھیلے ہوں کہ بے ہلائے بھی نیچے پانی بہ جائے گا تو کچھ ضرور ی نہیں۔ [19]

مسئلہ ۱۴: ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں [20] ،اُنگلیوں کی کروٹیں، ناخنوں کے اندر جو جگہ خالی ہے، کلائی کا ہر بال جڑ سے نوک تک ان سب پر پانی بہ جانا ضروری ہے اگر کچھ بھی رہ گیا یا بالوں کی جڑوں پر پانی بہ گیا کسی ایک بال کی نوک پر نہ بہا وُضو نہ ہوا مگر ناخنوں کے اندر کا میل معاف ہے۔ [21]

مسئلہ ۱۵: بجائے پانچ کے چھ انگلیاں ہیں تو سب کا دھونا فرض ہے اور اگر ایک مُونڈھے پر دو ہاتھ نکلے تو جو پُورا ہےاس کا دھونا فرض ہے اوراس دوسرے کادھونا فرض نہیں مستحب ہے مگر اس کا وہ حصہ کہ اس ہاتھ کے موضعِ فرض سے متصل ہے اتنے کا دھونا فرض ہے۔ [22]

۳۔ سرکا مسح کرنا:

چوتھائی سر کا مسح فرض ہے۔[23]

مسئلہ ۱۶: مسح کرنے کے لیے ہاتھ تَر ہونا چاہیئے، خواہ ہاتھ میں تَری اعضا کے دھونے کے بعد رہ گئی ہو یا نئے پانی سے ہاتھ تر کر لیا ہو۔ [24]

مسئلہ ۱۷: کِسی عُضو کے مسح کے بعد جو ہاتھ میں تَری باقی رہ جائے گی وہ دوسرے عُضْوْ کے مسح کے لیے کافی نہ ہوگی۔[25]

مسئلہ ۱۸: سر پر بال نہ ہوں تو جِلد کی چوتھائی اور جو بال ہوں تو خاص سر کے بالوں کی چَوتھائی کا مسح فرض ہے اور سر کا مسح اسی کو کہتے ہیں۔[26]

مسئلہ ۱۹: عمامے، ٹوپی، دُوپٹے پر مسح کافی نہیں۔ ہاں اگر ٹوپی، دُوپٹا اتنا باریک ہو کہ تَری پُھوٹ کر چوتھائی سر کو تَر کردے تو مسح ہو جائے گا۔[27]

مسئلہ ۲۰: سر سے جو بال لٹک رہے ہوں ان پر مسح کرنے سے مسح نہ ہوگا۔[28]

۴۔پاؤں کو گٹوں [29] سمیت ایک دفعہ دھونا: [30]

مسئلہ ۲۱: چَھلّے اور پاؤں کے گہنوں کا وہی حُکْم ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔[31]

مسئلہ ۲۲: بعض لوگ کسی بیماری کی وجہ سے پاؤں کے اَنگوٹھوں میں اس قدر کھینچ کر تاگا باندھ دیتے ہیں کہ پانی کا بہنا درکنار تاگے کے نیچے تر بھی نہیں ہوتا ان کو اس سے بچنا لازم ہے کہ اس صورت میں وُضو نہیں ہوتا۔

مسئلہ ۲۳: گھائیاں اور اُنگلیوں کی کروَٹیں، تلوے، ایڑیاں، کونچیں[32] ، سب کا دھونا فرض ہے۔ [33]

مسئلہ ۲۴: جن اَعضا کا دھونا فرض ہے ان پر پانی بہ جانا شرط ہے یہ ضرور نہیں کہ قَصْداًپانی بہائے اگر بِلاقَصْد و اِختیار بھی ان پر پانی بہ جائے (مثلاً مِینھ برسا اور اَعضائے وُضو کے ہر حصہ سے دو دو قطرے مِینھ کے بہ گئے وہ اعضا دُھل گئے اور سر کا چوتھائی حصہ نم ہو گیایا کسی تالاب میں گِر پڑا اور اعضائے وُضو پر پانی گزر گیاوُضو ہو گیا)۔

مسئلہ ۲۵: جس چیز کی آدمی کو عُموماً یا خُصوصاً ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کی نگِہداشت و اِحتیاط میں حَرج ہو، ناخنوں کے اندر یا اُوپریا اور کسی دھونے کی جگہ پر اس کے لگے رہ جانے سے اگرچہ جرم دارہو،اگرچہ اس کے نیچے پانی نہ پہنچے، اگرچہ سَخْت چیز ہو وُضو ہو جائے گا ،جیسے پکانے، گوندھنے والوں کے لیے آٹا، رنگریز کے لیے رنگ کا جرم،عورتوں کے لیے مہندی کا جرم، لکھنے والوں کے لیے روشنائی کا جرم،مزدور کے لیے گارا مٹی،عام لوگوں کے لیے کوئے یا پلک میں سُرمہ کا جرم،اسی طرح بدن کا میل، مٹی، غبار، مکھی، مچھر کی بیٹ وغیرہا۔ [34]

مسئلہ ۲۶: کسی جگہ چھالا تھا اور وہ سوکھ گیا مگراس کی کھال جدا نہ ہوئی تو کھال جدا کر کے پانی بہانا ضروری نہیں بلکہ اسی چھالے کی کھال پر پانی بہالینا کافی ہے۔ پھر اس کو جدا کر دیا تو اب بھی اس پر پانی بہانا ضروری نہیں۔ [35]

مسئلہ ۲۷: مچھلی کا سِنّا اعضائے وُضو پر چِپکارہ گیا وُضو نہ ہو گا کہ پانی اس کے نیچے نہ بہے گا۔ [36] (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۲۸۸تا ۲۹۲)


....[1] ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في الفرض القطعی والظنی، ج۱، ص۲۱۷.

و ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب الطھارۃ، باب الوضوء، ج۱، ص۲۱۸.

....[2] یعنی نیچے کے دانت جمنے کی جگہ۔

....[3]''الدرالمختار''معہ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص۲۱۶ ۔ ۲۱۹.

[4] ....''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطھارۃ، الباب الأول في الوضو، الفصل الأول، ج۱، ص۴.

....[5] یعنی وہ چند بال جو نیچے کے ہونٹ اور ٹھوڑی کے بیچ میں ہوتے ہیں۔

....[6] ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱، ص۲۱۴. و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق... إلخ، ج۱، ص۲۲۰.

....[7] ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱، ص۴۴۶.

....[8] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۲۱۴، ۴۴۶.

....[9] ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق... إلخ، ج۱، ص۲۱۹. و ''الفتاوی الرضویۃ''، ، ج۱، ص۲۱۴.

....[10] ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱، ص۲۱۶. و''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق... إلخ، ج۱، ص۲۲۰.

....[11] ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱، ص۴۴۵.

....[12] ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق... إلخ، ج۱، ص۲۲۰.

....[13] ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱، ص۲۰۰.

....[14] یعنی ناک کی طرف آنکھ کا کونہ۔

....[15] ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج ۱، ص۴۴۴.

....[16] ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول، ج۱، ص۴.

....[17] المرجع السابق

....[18] پُہنچی کی جمع، ایک زیور جو کلائی میں پہنا جاتا ہے۔

....[19] ''الفتاوی الرضویۃ'' ئ، ج۱، ص۲۱۶. و''الدرالمختار''، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص۳۱۷.

....[20] یعنیانگلیوں کے درمیان کی جگہ۔

....[21] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۴۵ .

....[22] ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطھارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول، ج۱، ص۴.

....[23] المرجع السابق، ص۵.

....[24] المرجع السابق، ص۶.

....[25] المرجع السابق.

....[26] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۲۱۶.

....[27] ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول، ج۱، ص۶.

....[28] المرجع السابق، ص۵.

....[29] یعنی ٹخنوں۔

....[30] ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول، ج۱، ص۵.

....[31] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۲۱۸.

....[32] یعنی ایڑیوں کے اوپر موٹے پٹھے۔

....[33] ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱، ص۴۴۵.

....[34] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۲۰۳.

....[35] ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول، ج۱، ص۵.

....[36] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۲۲۰.

Share