عقا ئد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہٗ

عقا ئد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہٗ

عقیدہ (۱): اﷲ (عَزَّوَجَل) ایک ہے [1]، کوئی اس کا شریک نہیں [2]، نہ ذات میں ، نہ صفات میں ، نہ افعال میں [3] نہ احکام میں [4]، نہ اسماء میں [5]، واجب الوجود ہے[6]، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال[7]، قدیم ہے [8]یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں ، باقی ہے[9] یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں ۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔[10]

عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔[11]

عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال[12]کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے[13]اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا[14]، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔

عقیدہ (۴): اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر[15]، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں [16]کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ [17]

عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں ۔ [18]

عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں [19] نہ زیرِ قدرت داخل۔

عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں ، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں ۔ [20]

عقیدہ (۸): صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔[21]

عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ [22]

عقیدہ (۱۰): نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے [23]، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔

عقیدہ (۱۱): و ہ حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔ [24]

عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں ۔ [25]

عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عَزَّوَجَل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عَزَّوَجَل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ [26]

عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔

عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جہل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں ۔[27]

عقیدہ (۱۶): حیات(۱)، قدرت(۲)، سننا(۳)، دیکھنا(۴)،کلام(۵)، علم (۶)، اِرادہ (۷)اُس کے صفاتِ ذاتیہ ہیں ، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں ، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں ، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔ [28]

عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے[29]، حادث و مخلوق نہیں ، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ہمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اُسے کافر کہا[30]، بلکہ صحابہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ [31]

عقیدہ (۱۸): اُس کا کلام آواز سے پاک ہے [32]اور یہ قر آ نِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں ، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ہمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ہمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ہمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ہمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ہمارا حفظ کرنا حادث ہے اورجو ہم نے حفظ کیا قدیم[33]، یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ [34]

عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ [35]

عقیدہ (۲۰): وہ غیب و شہادت [36]سب کو جانتا ہے [37]، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔[38] علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔

عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے[39]، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں ۔[40]

عقیدہ (۲۲) : حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے [41]، ملائکہ وغیر ہم و سائل و وسائط ہیں ۔ [42]

عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیےبھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ [43]تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔[44]

عقیدہ (۲۴):قضا تین قسم ہے۔

مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں ۔

اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔

اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔

وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔[45]ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ عَلٰی نَبِیّنَا الْکَرِیْم وَعَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیْم کہ رحمت ِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم[46]، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی ہوئے کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے، اُن کا رب فرماتا ہے۔

{ یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ(۷۴)}[47]

’’ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں ۔‘‘

یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عَزَّوَجَل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ’’ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں ‘‘، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عَزَّوَجَل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلَام سے دریافت فرمایا :’’کہ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ عرض کی موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلَام، فرمایا: ’’کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں ؟‘‘ عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ [48]جب آیۂ کریمہ{ وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵)}[49]نازل ہوئی کہ ’’بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔‘‘

حضور سیّدالمحبوبین صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: ((إِذاً لَّا أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ))۔ [50]

’’ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔‘‘

یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں ، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صَلَواتُ اﷲِ تَعَالٰی وَ سَلَامہ عَلَیْہِم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ’’روزِ قیامت اﷲ عَزَّوَجَل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:

((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ))۔[51]

’’اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔‘‘

خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلَام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا:

{ یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاۚ- ۔۔۔ وَ اِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ(۷۶){[52]

’’اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو ۔۔۔ بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں ۔‘‘

اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں ، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ اسی کو فرماتے ہیں : ’’میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں ‘‘[53]،اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا:

((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ))۔ [54]

’’بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔‘‘

مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ہلاکت ہے، صدیق وفاروق رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ [55]ما و شما [56]کس گنتی میں ۔۔۔! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تَعَالٰی نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار [57]دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں ، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ [58] اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں ۔ [59]

مسئلہ (۲): بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیت ِالٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔ [60]

عقیدہ (۲۵):اﷲ تعالٰی جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورتو جمیع حوادث سے پاک ہے۔ [61]

عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میںاﷲ عَزَّوَجَل کا دیدار نبی صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے لیے خاص ہے[62]اورآخرت میں ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ [63]رہا قلبی دیدار یا خواب میں ، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔[64] ہمارے امامِ اعظم [65] رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ کو خواب میں سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔ [66]

عقیدہ (۲۷): اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں ، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا،[67] پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل نہیں ، اِنْ شَاءَ اﷲُ تَعَالٰی جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رسا نہیں ، اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ کرے، یہ محال ہے۔[68]

عقیدہ (۲۸): وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی کو اُس پر قابو نہیں [69]اور نہ کوئی اُس کے ارادے سے اُسے باز رکھنے والا۔ [70]اُس کو نہ اُونگھ آئے نہ نیند[71]، تمام جہان کا نگاہ رکھنے والا [72]، نہ تھکے، نہ اُکتائے [73]، تمام عالم کا پالنے والا[74]،ماں باپ سے زیادہ مہربان، حلم والا۔ [75]اُسی کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا [76]، اُسی کے لیے بڑائی اور عظمت ہے۔ [77]ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے صورت بنانے والا [78]، گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، قہر و غضب فرمانے والا [79]، اُس کی پکڑ نہایت سخت ہے ، جس سے بے اُس کے چھڑائے کوئی چھوٹ نہیں سکتا۔[80] وہ چاہے تو چھوٹی چیز کو وسیع کر دے اور وسیع کو سمیٹ دے ، جس کو چاہے بلند کر دے اورجس کو چاہے پست، ذلیل کو عزت دیدے اور عزت والے کو ذلیل کر دے [81]، جس کو چاہے راہِ راست پر لائے اور جس کو چاہے سیدھی راہ سے الگ کر دے [82]، جسے چاہے اپنا نزدیک بنالے اور جسے چاہے مردود کر دے، جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے[83]، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کرے گا عدل وانصاف ہے ، ظلم سے پاک و صاف ہے [84]، نہایت بلند و بالا ہے [85]، وہ سب کو محیط ہے[86] اُس کا کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا[87]، نفع و ضرر اُسی کے ہاتھ میں ہیں [88]، مظلوم کی فریاد کو پہنچتا[89]اور ظالم سے بدلا لیتا ہے[90]، اُس کی مشیت اور اِرادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا [91]، مگر اچھے پر خوش ہوتا ہےاور بُرے سے ناراض، اُس کی رحمت ہے کہ ایسے کام کا حکم نہیں فرماتا جو طاقت سے باہر ہے۔ [92] اﷲ عَزَّوَجَل پر ثواب یا عذاب یا بندے کے ساتھ لطف یا اُس کے ساتھ وہ کرنا جو اُس کے حق میں بہتر ہو اُس پر کچھ واجب نہیں ۔ مالک علی الاطلاق ہے، جو چاہے کرے اور جو چاہے حکم دے[93]، ہاں ! اُس نے اپنے کرم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ مسلمانوں کوجنت میں داخل فرمائے گا اور بمقتضائے عدل کفّار کو جہنم میں [94]، اور اُس کے وعدہ و وعید بدلتے نہیں [95]، اُس نے وعدہ فرمالیا ہے کہ کفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا۔[96]

عقیدہ (۲۹): اُس کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہیں ، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں ، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہےاورنہ اُسکےافعال علّت وسبب کےمحتاج،اُسنےاپنی حکمتِ بالغہ کےمطابق عالَم ِاسباب میں مسبّب کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے [97]، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ [98] کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلَام کو کافروں نے ڈالا۔۔۔! کوئی پاس نہ جا سکتا تھا، گوپھن میں رکھ کر پھینکا، جب آگ کے مقابل پہنچے، جبریلِ امین عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلَام حاضر ہوئے اور عرض کی: ابراہیم کچھ حاجت ہے؟ فرمایا: ہے مگر نہ تم سے،

عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے، فرمایا:

’’عِلْمُہٗ بِحَالِيْ کَفَانِي عَنْ سُؤَالِيْ‘‘۔[99]

اظہارِ احتیاج خود آنجاچہ حاجت ست۔ [100]

ارشاد ہوا:

{ قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹)}[101]

’’اے آگ! ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا ابراہیم پر۔‘‘

اس ارشاد کو سُن کر روئے زمین پر جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں کہ شاید مجھی سے فرمایا جاتا ہو[102]اور یہ تو ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ علما فرماتے ہیں کہ اگر اس کے ساتھ {وَ سَلٰمًا} کا لفظ نہ فرما دیا جاتا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا تو اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک ایذا دیتی۔[103] (بہارِشریعت،حصہ اول،جلد ۱صفحہ۲تا۲۷)


[1] { قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱)} پ۳۰، الإخلاص: ۱۔

{ وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ } پ۲، البقرۃ: ۱۶۳۔

[2] {لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ- } پ۸، الأنعام: ۱۶۳۔

[3]في’’منح الروض الأزہر‘‘في’’شرح الفقہ الأکبر‘‘للقارئ،ص۱۴:(واللّٰہ تعالی واحد) أي: في ذاتہ (لا من طریق العدد) أي: حتی لا یتوہم أن یکون بعدہ أحد (ولکن من طریق أنّہ لا شریک لہ) أي: في نعتہ السرمديّ لا في ذاتہ ولا في صفاتہ

وفي ’’حاشیۃالصاوي‘‘،پ۳۰، الإخلاص، تحت الآیۃ ۱:(والتنزہ عن الشبیہ والنظیر والمثیل في الذات والصفات والأفعال)، ج۶، ص۲۴۵۱۔ وانظر للتفصیل رسالۃ الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن: ’’اعتقادالأحباب في الجمیل والمصطفی والآل والأصحاب‘‘المعروف بہ ’’دس عقیدے‘‘، ج۲۹، ص۳۳۹۔

[4] { وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا(۲۶)}پ۱۵، الکہف: ۲۶۔

في ’’تفسیرالطبري‘‘،ج۸، ص۲۱۲، تحت الآیۃ: (یقول: ولا یجعل اللّٰہ في قضائہ وحکمہ في خلقہ أحداً سواہ شریکاً، بل ہو المنفرد بالحکم والقضاء فیہم، وتدبیرہم وتصریفہم فیما شاء وأحبّ

[5] { هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠(۶۵)}پ۱۶، مریم: ۶۵، في ’’التفسیرالکبیر‘‘تحت الآیۃ: (المرادأنّہ سبحانہ لیس لہ شریک في اسمہ

[6] في’’منح الروض الأزہر‘‘في’’شرح الفقہ الأکبر‘‘للقاریٔ،ص۱۵: (لایشبہ شیئاً من الأشیاء من خلقہ) أي: مخلوقاتہ، وہذا؛ لأنّہ تعالی واجب الوجود لذاتہ وماسواہ ممکن الوجود في حد ذاتہ، فواجب الوجود ہوالصّمد الغنيّ الذي لایفتقر إلی شيئ، ویحتاج کل ممکن إلیہ في إیجادہ وإمدادہ، قال اللّٰہ تعالی: { وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-}۔

[7] یعنی اُس کا موجودنہ ہونا، نا ممکن ہے۔

[8] في ’’المعتقدالمنتقد‘‘،ص۱۸: (ومنہ أنّہ قدیم، لا أوّل لہ ۔أي: لم یسبق وجودہ عدم۔ ولیس تحت لفظِ القدیم معنی في حقّ اللّٰہ تعالی سوی إثبات وجود، ونفي عدم سابق، فلا تَظَنَّنْ أنّ القدم معنی زائد علی الذات القدیمۃ، فیلزمک أن تقول: إنّ ذلک المعنی أیضاً قدیم بقدم زائد علیہ ویتسلسل إلی غیر نہایۃ، ومعنی القدم في حقہ تعالی ۔أي: امتناع سبق العدم علیہ۔ ہو معنی کونہ أزلیّاً، ولیس بمعنی تطاول الزمان، فإنّ ذلک وصف للمحدثات کما في قولہ تعالی: { كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ(۳۹)}۔

[9] { كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-} پ۲۰، القصص: ۸۸۔

وفي’’المعتقدالمنتقد‘‘،ومنہ أنّہ باق،لیس لوجودہ آخر۔أي: یستحیل أن یلحقہ عدم۔وہومعنی کونہ أبدیا

انظر للتفصیل: ’’المسامرۃبشرح المسایرۃ‘‘،الأصل الثاني والثالث،تحت قولہ: (أنّہ تعال یقدیم لاأوّل لہ ،وأنّ اللّٰہ تعالی أبدي لیس لوجودہ آخر)،ص۲۲۔ ۲۴۔

[10] { یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ }پ۱، البقرۃ: ۲۱۔

{ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُۚ-}پ۷، الأنعام: ۱۰۲۔

{ وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ } پ۱۵، بني اسرآئیل: ۲۳۔

{ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُؕ-} پ۱۲، یوسف: ۴۰۔

[11] { اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲)}پ۳۰، الإخلاص: ۲۔

وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘في’’شرح الفقہ الأکبر‘‘،ص۱۴:{ اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲)} أي: المستغني عن کل أحد والمحتاج إلیہ کلُّ أحد۔

[12] یعنی اس کی ذات کا عقل کے ذریعے اِحاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

[13] یعنی اس کا اِحاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے۔

[14] في’’التفسیرالکبیر‘‘،ج۵، ص۱۰۰، پ۷، الأنعام، تحت الآیۃ : ۱۰۳:{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘- } المرئي إذا کان لہ حد ونھایۃ وأدرکہ البصر بجمیع حدودہ وجوانبہ ونھایاتہ، صارکأنّ ذلک الأبصار أحاط بہ فتسمی ہذہ الرؤیۃ إدراکاً، أما إذا لم یحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤیۃ إدراکاً۔ فالحاصل: أنّ الرؤیۃ جنس تحتہا نوعان: رؤیۃ مع الإحاطۃ، ورؤیۃ لا مع الإحاطۃ، والرؤیۃ مع الإحاطۃ ہي المسماۃ بالإدراک

[15] في’’المسایرۃ‘‘،ص۳۹۲: (لیست صفاتہ من قبیل الأعراض ولا عینہ ولا غیرہ) ۔ وفي ’’شرح العقائد النسفیۃ‘‘،ص۴۷۔۴۸: (وہي لا ہو ولا غیرہ، یعني: أنّ صفات اللّٰہ تعالی لیست عین الذات ولا غیر الذات…الخ)

[16] یعنی کسی بھی طور پر صفات، ذات سے جدا ہو کر نہیں پائی جا سکتیں ۔

[17] بلا تشبیہ اس کو یوں سمجھیں کہ پھول کی خوشبو پھول کی صفت ہے جو پھول کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے، مگر اس خوشبو کو ہم پھول نہیں کہتے، اور نہ ہی اُسے پھول سے جدا کہہ سکتے ہیں ۔

[18] في’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ،ص۲۳: (لم یحدث لہ اسم ولا صفۃ) یعني:أنّ صفات اللّٰہ وأسمائہ کلّہا أزلیۃ لا بدایۃ لہا، وأبدیۃ لا نہایۃ لہا، لم یتجدد لہ تعالی صفۃ من صفاتہ ولا اسم من أسمائہ، لأنّہ سبحانہ واجب الوجود لذاتہ الکامل في ذاتہ وصفاتہ، فلوحدث لہ صفۃ أو زال عنہ نعت لکان قبل حدوث تلک الصفۃ وبعد زوال ذلک النعت ناقصاً عن مقام الکمال، و ہو في حقہ سبحانہ من المحال، فصفاتہ تعالی کلّہا أزلیۃ أبدیۃوفي ’’المعتمد المستند‘‘،ص۴۶۔۴۷: (وبالجملۃ: فالذي نعتقدہ في دین اللّٰہ تعالی أنّ لہ عزوجل صفات أزلیۃ قدیمۃ قائمۃ بذاتہ عزوجل، لوازم لنفس ذاتہ تعالٰی، ومقتضَیات لہا بحیث لا تقدیر للذات بدونھا…إلخ)۔

[19] في ’’الفقہ الأکبر‘‘،ص۲۵: (صفاتہ في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ وانظر: ’’المعتقدالمنتقد‘‘،ص۴۹۔

[20] وفي ’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘،ص۲۴: (والعالم) أي: ما سوی اللّٰہ تعالی من الموجودات ممّا یعلم بہ الصانع یقال عالم الأجسام وعالم الأعراض وعالم النباتات وعالم الحیوان إلی غیر ذلک، فتخرج صفات اللّٰہ تعالی؛ لأنّھا لیست غیر الذات کما أنّہا لیست عینھا (بجمیع أجزائہ) من السموات وما فیھا والأرض وما علیہا (محدث

[21] في ’’المعتقدالمنتقد‘‘،ص۴۹: (صفات اللّٰہ تعالی في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ، فمن قال: إنّہا مخلوقۃ أو محدثۃ، أو وقف فیہا بأن لا یحکم بأنہا قدیمۃ أوحادثۃ، أوشک فیہا، أو تردد في ہذہ المسألۃ ونحوہا فہوکافر باللّٰہ تعالی

قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن في حاشیتہ، ص۵۰:تحت قولہ: ’’فہوکافر‘‘: (ہذا نص سیدنا الإمام الأعظم رضي اللّٰہ تعالی عنہ في ’’الفقہ الأکبر‘‘وقدتواترعن الصحابۃالکرام والتابعین والمجتہدین الأعلام علیہم الرضوان التام إکفار القائل بخلق الکلام کما نقلنا نصوص کثیر منہم في ’’سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح‘‘وہمالقدوۃللفقہاءالکرام في إکفارکل من أنکرقطعیاً،والمتکلمون خصّوہ بالضروري وہوالأحوط۔ ۱۲

وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘،ص۲۵، تحت قولہ: (فہوکافر باللّٰہ) أي: ببعض صفاتہ، وہو مکلّف بأن یکون عارفاً بذاتہ وجمیع صفاتہ إلاّ أن الجہل والشک الموجبین للکفر مخصوصان بصفات اللّٰہ المذکورۃ من النعوت المسطورۃ المشہورۃ، أعني: الحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ والتخلیق والترزیق۔

22 في ’’الشفا‘‘،فصل في بیان ماہومن المقالات کفر،ج۲، ص۲۸۳: (نقطع علی کفر من قال بقدم العالم، أو بقائہ، أو شک في ذلک وانظر: ’’المعتقدالمنتقد،ص۱۹، و’’إنباءالحی‘‘،ص۲۳۱، و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘،ج۲۷، ص۱۳۱۔

[23] { لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ(۳)}پ۳۰، الإخلاص:۳۔

{ مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًاۙ(۳)}پ۲۹، الجن: ۳۔

{ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ(۹۲)} پ۱۶، مریم: ۹۲۔

{ قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ﳓ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ(۸۱)} پ۲۵، الزخرف: ۸۱۔

{ وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا } پ۱۵، بنی اسرائیل:۱۱۱۔

في ’’الشفا‘‘،فصل في بیان ماہومن المقالات کفر،ج۲، ص۲۸۳: (من ادّعی لہ ولداً أو صاحبۃ أو والداً أو متولدٌ من شيئ فذلک کلّہ کفر بإجماع المسلمین)، ملتقطاً۔وفي ’’مجمع الأنہر‘‘،کتاب السیروالجہاد،ج۲، ص۵۰۴، و’’البحرالرائق‘‘،ج۵، ص۲۰۲: (إذا وصف اللّٰہ تعالی بما لا یلیق بہ۔۔۔ أوجعل لہ شریکاً أو ولداً أو زوجۃ۔۔۔ یکفروفي ’’التاتارخانیۃ‘‘،کتاب أحکام المرتدین،ج۵، ص۴۶۳: (وفي ’’خزانۃالفقہ‘‘: لوقال: للّٰہ تعالی شریک،أوولد،أوزوجۃ،۔۔۔کفر

[24] { هُوَۙ-الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ } پ۳، البقرۃ: ۲۵۵۔{ وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ } پ۱۸، المؤمنون: ۸۰۔

[25] { اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰)} پ۱، البقرۃ:۲۰۔

في ’’حاشیۃالصاوي‘‘،ج۱،ص۳۸، تحت ہذہ الآیۃ: وقولہ: { قَدِیْرٌ۠ } من القدرۃ وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالممکنات إیجادًا أو إعدامًا علی وفق الإرادۃ والعلمفي ’’التفسیرالکبیر‘‘،ج۷، ص۴۵۴، پ ۱۵، الکہف:۲۵:(أنّہ تعالی قادر علی کلّ الممکناتفي ’’المسایرۃ‘‘،ص۳۹۱: (وقدرتہ علی کلّ الممکنات

[26] انظر للتفصیل: ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘،’’سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح‘‘ج۱۵، ص۳۲۲۔

[27] في ’’المسامرۃبشرح المسایرۃ‘‘،ص۳۹۳: (یستحیل علیہ) سبحانہ (سمات النقص کالجھل والکذب) بل یستحیل علیہ کلّ صفۃ لاکمال فیہا ولا نقص؛ لأنّ کلاًّ من صفات الإلہ صفۃ کمال انظر للتفصیل: ’’المسامرۃبشرح المسایرۃ‘‘، واتفقوا علی أنّ ذلک غیر واقع، ص۲۰۴ ۔۲۱۰، و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘،ج۱۵، ص۳۲۰۔۳۲۲۔

[28] { اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ } پ۳، اٰل عمران:۲۔

{ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۱۲۰)} پ۷، المائدۃ:۱۲۰۔

{ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۠(۲۰)} پ۲۴، المؤمن: ۲۰۔

{ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)} پ۶، النساء:۱۶۴۔

{ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۠(۱۲)} پ۲۸، الطلاق:۱۲۔

{ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ(۱)} پ۶، المائدۃ:۱۔ { اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(۱۰۷) } پ۱۲، ہود: ۱۰۷۔

في ’’فقہ الأکبر‘‘،ص۱۵۔۱۹: (لم یزل ولا یزال بأسمائہ وصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ، أمّا الذاتیۃ فالحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ

في’’المسامرۃبشرح المسایرۃ‘‘،ص۳۹۱۔۳۹۲: (وصفات ذاتہ حیاتہ بلا روح حالَّۃ، وعلمہ وقدرتہ وإرادتہ وسمعہ بلا صماخ لکل خفي کوقع أرجل النملۃ) علی الأجسام اللینۃ (وکلام النفس) فإنّہ تعالی یسمع کلاًّ منہما (وبصرہ بلا حدقۃ یقل بہا، تعالی رب العالمین عن ذلک) أي: عن الصماخ والحدقۃ ونحوہما من صفات المخلوقین (لکل موجود) متعلق بقولہ: وبصرہ، فہو متعلّق بکلّ موجود، قدیم أو حادث، جلیل أو دقیق (کأرجل النملۃ السوداء علی الصخرۃ السوداء في اللیلۃ الظلماء، ولخفایا السرائر، متکلمٌ بکلام قائم بنفسہ أزلاً وأبداً)، ملتقطاً۔

وفي ’’الحدیقۃالندیۃ‘‘،ج۱، ص۲۵۳۔۲۵۶: (لہ) سبحانہ وتعالی (صفات قدیمۃ قائمۃ بذاتہ، لا ہو ولا غیرہ، ہي الحیاۃ، والعلم، والقدرۃ، والسمع) وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالمسموعات أوالموجودات فتدرک إدراکاً تاماً لا علی سبیل التخیّل والتوہّم، ولا علی طریق تأثّر حاسۃ ووصول ہواء، (و) الخامسۃ (البصر) وعرفہ اللاقاني أیضاً بأنّہ صفۃ أزلیۃ

تتعلق بالمبصرات أوبالموجودات فتدرک إدراکاً تاماً لا علی سبیل التخیّل والتوہّم ولا علی طریق تأثیر حاسۃ ووصول شعاع، (و) السادسۃ (الإرادۃ، و) السابعۃ (التکوین، و) الثامنۃ (الکلام الذي لیس من جنس الحروف والأصوات)؛ لأنّہا أعراض حادثۃ وکلامہ تعالی قدیم فہو منزّہ عنہا، ملتقطاً۔

29 في’’الفقہ الأکبر‘‘،ص۲۸: (والقرآن کلام اللّٰہ تعالی فہو قدیم

[30]وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘،ص۲۶: (قال الإمام الأعظم في کتابہ ’’الوصیۃ‘‘: من قال بأنّ کلام اللّٰہ تعالی مخلوق فہوکافرباللّٰہ العظیم)،ملتقطاً۔وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۲۹: (واعلم أنّ ما جاء في کلام الإمام الأعظم وغیرہ من علماء الأنام من تکفیر القائل بخلق القرآن فمحمول علی کفران النعمۃ لا کفر الخروج من الملّۃ وفي ’’الحدیقۃالندیۃ‘‘،ج۱، ص۲۵۸: (ذکر ابن الکمال في بعض رسائلہ: أنّ أبا حنیفۃ وأبا یوسف رضي اللّٰہ تعالی عنہما تناظرا ستۃ أشہر، ثمّ استقر رأیہما علی أنّ من قال بخلق القرآن فہو کافر، وقد ذکر في الأصول أنّ قول أبي حنیفۃ إنّ القائل بخلق القرآن کافر محمول علی الشتم لا علی الحقیقۃ فہو دلیل علی أنّ القائل بہ مبتدع ضال لا کافروفي ’’المعتقدالمنتقد‘‘،ص۳۸: (ومنکر أصل الکلام کافر لثبوتہ بالکتاب والإجماع، وکذا منکر قدمہ إن أراد المعنی القائم بذاتہ، واتفق السلف علی منع أن یقال القرآن مخلوق وإن أرید بہ اللفظي، والاختلاف في التکفیرکما قیلقال الإمام أحمد رضا في ’’حاشیتہ‘‘،ص۳۸:قولہ: (وکذا منکر قدمہ) أي: (فیہ تکفیر الکرامیۃ وہو مسلک الفقہاء، أمّا جمہور المتکلمین فیأبون الإکفار إلاّ بإنکار شيء من ضروریات الدین، وہو الأحوط المأخوذ المعتمد عندنا وعند المصنّف العلام تبعاً للمحقّقین۔ ۱۲إمام أہل السنۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ۔

[31] انظر ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۵، ص۳۷۹۔۳۸۴۔

[32] في’’منح الروض الأزہر‘‘،للقاریٔ، ص۱۷: (إنّ کلامہ لیس من جنس الحروف والأصوات

[33] قال الإمام أحمد رضا في ’’المعتمدالمستند‘‘،ص۳۵: (وإنّما المذہب ما علیہ أئمۃ السلف أنّ کلام اللّٰہ تعالی واحد لا تعدّد فیہ أصلاً، لم ینفصل ولن ینفصل عن الرحمن، ولم یحل في قلب ولا لسان، ولا أوراق ولا آذان، ومع ذلک لیس المحفوظ في صدورنا إلاّ ہو، ولا المتلو بأفواہنا إلاّ ہو، ولا المکتوب في مصاحفنا إلاّ ہو، ولا المسموع بأسماعنا إلاّ ہو، لا یحلّ لأحد أن یقول بحدوث المحفوظ المتلو المکتوب المسموع، إنّما الحادث نحن، وحفظنا، وألسننا، وتلاوتنا، وأیدینا، وکتابتنا، وآذاننا، وسماعتنا، والقرآن القدیم القائم بذاتہ تعالی ہو المتجلي علی قلوبنا بکسوۃ المفہوم، وألسنتنا بصورۃ المنطوق، ومصاحفنا بلباس المنقوش، وآذاننا بزيّ المسموع فہو المفہوم المنطوق المنقوش المسموع لا شيء آخر غیرہ دالاًّ علیہ، وذلک من دون أن یکون لہ انفصال عن اللّٰہ سبحانہ وتعالی، أو اتصال بالحوادث أو حلول في شيء ممّا ذکر، وکیف یحلّ القدیم في الحادث، ولا وجود للحادث مع القدیم، إنّما الوجود للقدیم وللحادث منہ إضافۃ لتکریم، ومعلوم أنّ تعدّد التجلّي لا یقتضي تعدد المتجلي۔

؎ دمبدم گر لباس گشت بدل شخص صاحب لباس راچہ خلل

عرف ہذا من عرف، ومن لم یقدر علی فہمہ فعلیہ أن یؤمن بہ کما یؤمن باللّٰہ وسائر صفاتہ من دون إدراک الکنہ

وقد فصل وحقق الإمام أحمد رضا ہذہ المسألۃ في رسالتہ: ’’أنوارالمنّان في توحید القرآن‘‘،وقال في آخرہ، ص۲۷۰۔۲۷۱: (وذلک قول أئمتنا السلف إنّ القرآن واحد حقیقي أزلي، وہو المتجلّي في جمیع المجالي، لیس علی قدمہ بحدوثہا أثر، ولا علی وحدتہ بکثرتہا ضرر، ولا لغیرہ فیہا عین ولا أثر، القراء ۃ والکتابۃ والحفظ والسمع والألسن والبنان والقلوب والآذان کلّہا حوادث عرضۃ للغیار، والمقروء المکتوب المحفوظ المسموع ہوالقرآن القدیم حقیقۃً وحقّاً لیس في الدار غیرہ دیّار، والعجب أنّہ لم یحل فیہا ولم تخل عنہ، ولم یتصل بہا ولم تبن منہ، وہذا ہو السر الذي لا یفہمہ إلاّ العارفون، { وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤاِلَّاالْعٰلِمُوْنَ(۴۳)}إنّ من العلم کہیأۃالمکنون لایعلمہ إلاّالعلماءباللّٰہ،فإذانطقوابہ لاینکرہ إلاّأہل الغرۃباللّٰہ۔رواہ في’’مسندالفردوس‘‘عن أبي ہریرۃرضي اللّٰہ تعالی عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

والمسألۃ وإن کانت من أصعب ما یکون فلم آلُ بحمد اللّٰہ تعالی جھداً في الإیضاح حتی آض بعونہ تعالی لیلہا کنہارہا، بل قد استغنیت عن المصباح بالإصباح۔ وبالجملۃ فاحفظ عنّي ہذا الحرف المبین ینفعک یوم لا ینفع مال ولابنون إلاّ من أتی اللّٰہ بقلب سلیم، أنّک إن قلت إنّ جبریل حدث الآن بحدوث الفحل أو لم یزل فحلاً مذ وجد فقد ضللت ضلالاً مھیناً، وإن قلت إنّ الفحل لم یکن جبریل بل شيء آخر علیہ دلیل فقد بھتّ بھتاً مبیناً، ولکن قل ہو جبریل قطعاً تصوّر بہ، فکذا إن زعمت أنّ القرآن حدث بحدوث المکتوب أو المقروء أو لم یزل أصواتاً ونقوشاً من الأزل فقد أخطأت الحق بلا مریۃ، وإن زعمت أنّ

المکتوب المقروء لیس کلام اللّٰہ الأزلي بل شيء غیرہ یؤدي مؤدّاہ فقد أعظمت الفریۃ، ولکن قل ہو القرآن حقّاً تطوّر بہ، وہکذا کلّما اعتراک شبہۃ في ہذا المجال فاعرضہا علی حدیث الفحل تنکشف لک جلیۃ الحال، وما التوفیق إلاّ باللّٰہ المہیمن المتعال

34متجلّی یعنی کلام الہی، قدیم ہے،اور تجلّی یعنی ہمارا پڑھنا،سننا، لکھنا ، یاد کرنا یہ سب حادث ہے۔

[35] { یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۴)} پ۲۸، التغابن: ۴۔

{ وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَؕ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ-وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۵۹)}پ۷، الأنعام:۵۹۔

{ وَ اَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۳)اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠(۱۴)} پ۲۹، الملک: ۱۳۔ ۱۴، { وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۠(۱۲)} پ۲۸،الطلاق:۱۲۔

في ’’التفسیرالکبیر‘‘،تحت الآیۃ: (یعني: بکلّ شيءمن الکلیات والجزئیات) ج۱۰، ص۵۶۷۔

في’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ،ص۱۶، تحت قولہ: (والعلم)أي: من الصفات الذاتیۃ، وہي صفۃ أزلیۃ تنکشف المعلومات عند تعلّقہا بہا، فاللّٰہ تعالی عالم بجمیع الموجودات لا یعزب عن علمہ مثقال ذرۃ في العلویات والسفلیات، وأنّہ تعالی یعلم الجہر والسرّ وما یکون أخفی منہ من المغیبات، بل أحاط بکلّ شیء علماً من الجزئیات والکلیات والموجودات والمعدومات والممکنات والمستحیلات، فہو بکلّ شيء علیم من الذوات والصفات بعلم قدیم لم یزل موصوفاً بہ علی وجہ الکمال، لا بعلم حادث حاصل في ذاتہ بالقبول والانفعال والتغیّر والانتقال، تعالی اللّٰہ عن ذلک شأنہ وتعظم عمّا نہاک برہانہ۔

في’’الحدیقۃالندیۃ‘‘، ج۱، ص۲۵۴: (العلم) وہي صفۃ تنکشف بہا المعلومات عند تعلّقہا بہا سواء کانت المعلومات موجودۃ أو معدومۃ، محالۃ کانت أو ممکنۃ، قدیمۃ کانت أوحادثۃ، متناہیۃ کانت أوغیر متناہیۃ، جزئیۃ کانت أوکلیۃ، وبالجملۃ جمیع ما یمکن أن یتعلق بہ العلم فہومعلوم للّٰہ تعالی۔

[36] پوشیدہ اورظاہر۔

[37] { هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-} پ۲۸، الحشر: ۲۲۔

[38] في ’’الدولۃالمکیۃبالمادۃالغیبیۃ‘‘،ص۳۹: (العلم ذاتي مختص بالمولی سبحانہ وتعالی لا یمکن لغیرہ، ومن أثبت شیئاً منہ ولو أدنی من أدنی من أدنی من ذرۃ لأحد من العالمین فقد کفر وأشرک وبار وھلکملتقطاً۔ انظر للتفصیل:’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۹، ص۴۳۶۔۴۳۷۔

[39] { اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ } پ۱۳، الرعد: ۱۶۔

[40] { وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)} پ۲۳، الصآفات: ۹۶۔ في ’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘، ص۷۶: (واللّٰہ تعالی خالق لأفعال العباد من الکفر والإیمان والطاعۃ والعصیان في ’’الیواقیت‘‘، ص۱۸۹: (أنّ اللّٰہ تعالٰی خالق لأفعال العبد کما ہو خالق لذواتہم

[41] { اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ(۵۸)}پ۲۷، الذّٰریٰت: ۵۸۔

[42] { فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًاۙ(۴)}پ۲۶، الذّٰریٰت: ۴۔ { فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاۘ(۵)} پ۳۰، النازعات: ۵۔ في’’تفسیرالبغوي‘‘، ج۴، ص ۴۱۱، پ۳۰،تحت الآیۃ:۵{ فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاۘ(۵)} قال ابن عباس: ہم الملائکۃ وکّلوا بأمور عرّفہم اللّٰہ عزوجل العمل بہا۔ قال عبدالرحمن بن سابط: یدبّرالأمر في الدنیا أربعۃ جبریل ومیکائیل وملک الموت وإسرافیل علیہم السلام، أمّا جبریل فموکّل بالوحي والبطش وہزم الجیوش، وأمّا میکائیل فموکّل بالمطر والنبات والأرزاق، وأمّا ملک الموت فموکّل بقبض الأنفس، وأمّا إسرافیل فہو صاحب الصُّور، ولا ینزل إلاّ للأمر العظیم۔وفي’’کنزالعمال‘‘،کتاب البیوع،قسم الأقوال، الجزء۴، ص۱۳، الحدیث:۹۳۱۷: ((إنّ للّٰہ تعالی ملائکۃ موکلین بأرزاق بني آدم، ثمّ قال لہم: أیّما عبد وجدتموہ جعل الہمّ ہمّاً واحدًا، فضمنوا رزقہ السموات والأرض وبني آدم، وأیّما عبد وجدتموہ طلبہ فإن تحری العدل فطیب وا لہ ویسّروا، وإن تعدّی إلی غیر ذلک فخلّوا بینہ وبین ما یرید، ثمّ لا ینال فوق الدرجۃ التي کتبتہا لہ))۔

[43] في ’’الفقہ الأکبر‘‘، ص۴۰: (وکان اللّٰہ تعالی عالماً في الأزل بالأشیاء قبل کونہا، وہو الذي قدّر الأشیاء وقضاہافي’’شرح النووي‘‘،کتابالإیمان، ج۱، ص۲۷: (واعلم : أنّ مذہب أہل الحق إثبات القدر ومعناہ: أنّ اللّٰہ تبارک وتعالی قدّر الأشیاء في القدم وعلم سبحانہ أنّہا ستقع في أوقات معلومۃ عندہ سبحانہ وتعالی وعلی صفات مخصوصۃ فہي تقع علی حسب ما قدّرہا سبحانہ وتعالی واللّٰہ سبحانہ وتعالی خالق الخیر والشرجمیعًا لا یکون شيء منہما إلاّ بمشیّتہ، فہما مضافان إلی اللّٰہ سبحانہ وتعالی خلقًا وإیجادًا، وإلی الفاعلین لہما من عبادہ فعلاً واکتسابًا واللّٰہ أعلم۔ قال الخطابي: وقد یحسب کثیر من الناس: أنّ معنی القضاء والقدر إجبارُ اللّٰہِ سبحانہ العبد وقہرہ علی ما قدّرہ وقضاہ ولیس الأمرکما یتوہمونہ، وإنّما معناہ الإخبار عن تقدّم علم اللّٰہ سبحانہ وتعالی بما یکون من اکتساب العبد وصدورہا عن تقدیر منہ وخلق لہا خیرہا وشرّہا، ملتقطاً۔ وانظر: ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۹، ص۲۸۵، و’’شرح السنۃ‘‘للبغوي،باب الإیمان بالقدر، ج۱، ص۱۴۰- ۱۴۱.

[44] عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((القدریۃ مجوس ہذہ الأمّۃ)) وقال: ((لکلّ أمۃ مجوس ومجوس ہذہ الأمّۃ الذین یقولون لا قدرَ)).’’سنن أبي داود‘‘،کتاب السنۃ،باب الدلیل علی زیادۃالإیمان ونقصانہ،الحدیث:۴۶۹۱، ۴۶۹۲، ص۱۵۶۷۔

[45] ’’مکتوبات إمام رباني‘‘،فارسی،مکتوب نمبر ۲۱۷، ج۱، ص۱۲۳۔۱۲۴۔

[46] في’’تفسیرالقرطبي‘‘،پ۱، البقرۃ: ۱۲۴،ج۱، الجزء الثاني، ص۷۴، تحت الآیۃ: { وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-۔۔۔إلخ} وإبراہیم تفسیرہ بالسّریانیۃ فیما ذکر الماوردي، وبالعربیۃ فیما ذکر ابن عطیۃ: أب رحیم، قال السُّہیلي:

وکثیراً ما یقع الاتفاق بین السّریاني والعربي أو یقاربہ في اللفظ؛ ألا تری أنّ إبراہیم تفسیرہ: أب راحم؛ لرحمتہ بالأطفال، ولذلک جعل ہو وسارۃ زوجتہ کافلین لأطفال المؤمنین الذین یموتون صغاراً إلی یوم القیامۃ)۔ و’’تفسیرروح البیان‘‘،ج۱، ص۲۲۱۔

47… پ۱۲، ھود: ۷۴۔

[48] عن عبد اللّٰہ بن مسعود عن أبیہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((سمعت کلاماً في السماء، فقلت: یا جبریل! من ہذا؟)) قال: ہذا موسی، قلت: ((ومن یناجي؟)) قال: ربہ تعالی، قلت: ((ویرفع صوتہ علی ربہ؟)) قال: إنّ اللّٰہ عزوجل قد عرف لہ حدَّتَہ۔حلیۃالأولیاء‘‘،ج۱۰، ص۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷۰۸۔’’کنزالعمال‘‘،کتاب الفضائل،فضائل سائر الأنبیاء،رقم: ۳۲۳۸۵، ج۶، الجزء ۱۱، ص۲۳۲۔’’فتح الباری‘‘،کتاب من اقبال أنصار،باب المعراج، ج۷، ص۱۸۰، تحت الحدیث: ۳۸۸۷۔

[49] پ۳۰، الضحٰی: ۵۔

[50] ’’التفسیرالکبیر‘‘، پ۳۰، الضحی: تحت الآیۃ: ۵، ج۱۱، ص۱۹۴۔

51 عن علي قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ السقط لیراغم ربہ إذا أدخل أبویہ النار، فیقال: أیہا السقط المراغم ربہ أدخل أبویک الجنۃ، فیجرّہما بسررہ حتی یدخلہما الجنۃ))۔ قال أبو علي: یراغم ربہ، یغاضب۔

’’سنن ابن ماجہ‘‘،أبواب ماجاء في الجنائز،باب ماجاءفیمن أصیب بسقط،الحدیث: ۱۶۰۸، ج۲، ص۲۷۳۔

52{ یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاۚ-اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَۚ-وَ اِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ(۷۶)} پ۱۲، ھود: ۷۶۔

53حضور سیدنا غوث اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ کے فرمان ’’میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں ‘‘ پر کلا م کرتے ہوئے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں : (بدان ارشدک اللّٰہ تعالی سبحانہ قضا بر دو قسم است، قضاء معلق وقضاء مبرم در قضاء معلق احتمال تغییر وتبدیل است، ودر قضاء مبرم تغییر وتبدیل را مجال نیست، قال اللّٰہ سبحانہ وتعالی: { مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ } ۲۶، ق: ۲۹]این در قضاء مبرم است، ودر قضاء معلق میفرماید: { یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ(۳۹)} ۱۳، الرعد: ۳۹]حضرت قبلہ گاہی ام قدّس سرّہ میفرمودند کہ حضرت سید محی الدین جیلانی قدّس سرّہ در بعضی از رسائل خود نوشتہ اند کہ در قضاء ِ مبرَم ہیچکس را مجال نیست کہ تبدیل بدہد مگر مرا کہ اگر خواہم انجا ہمتصرّف بکنم، وازین سخن تعجّب بسیار میکردند واستبعاد میفرمودند، واین نقل مدتہا در خزینۂ ذہنِ این فقیر بود تاآنکہ حضرتِِ حق سبحانہ وتعالی باین دولتِ عظمے مشرف ساخت، روزے در صد ودفع بلیّہ بودم کہ بہ بعضی از دوستان نامزد شدہ بود دوران وقت التجا وتضرّع ونیاز وخشوعِ تمام داشتم ظاہر شد کہ در لوح محفوظ قضاء این امر معلق بامرے نیست ومشروط بشرطے ، نہ یک گونہ یاس وناامیدی دست دادوسخنِ حضرت سید محی الدین قدّس سرّہ بیاد آمد مرّۃً ، ثانیۃ باز ملتجی ومتضرع گشت دراہِِ عجز ونیاز پیش گرفتہ متوجّہ شد بمحض فضل وکرم ظاہر ساختند کہ قضاء معلق بردوگونہ است، قضائے است کہ تعلیق او را در لوح محفوظ ظاہر ساختہ اندو ملائکہ را بر ان اطلاع دادہ، وقضائیکہ تعلیقِ اونزدِ خدا ست جلّ شانُہ، وبس ودر لوح محفوظ صورتِ قضاءِ مبرم دار،(کہ بظاہر در لوح محفوظ مشروط بامرے نساختہ اند بلکہ مطلق گذاشتہ لیکن نفس الامر مقید بقید ومشروط بشرط است۱۲ حاشیہ) واین قسم اخیر از قضاء معلّق نیز احتمالِ تبدیل دارد، در رنگ قسم اول از انجا معلوم شد کہ سخنِ سید مصروف با ینقسم اخیر است کہ صورت قضاء مبرم وارد نہ بقضاء کہ بحقیقت مبرم است کہ تصرف وتبدیل در ان محالست عقلاً وشرعاً کما لا یخفی، والحق کہ کم کسے رابر حقیقتِ آ ن قضاء اطلاع است فکیف کہ در انجا تصرّف نماید، وبلیّہ کہ متوجہِ آن دوست شدہ بود دران قسم اخیر یافت ومعلوم شد کہ حضرت حق سبحانہ وتعالی دفع آن بلیّہ فرمود)۔’’مکتوباتإمامرباني‘‘،فارسی،مکتوب نمبر ۲۱۷، ج۱، ص۱۲۳۔۱۲۴۔

یعنی: جان لے اللہ تجھے ہدایت عطا فرمائے اے پیارے بھائی! قضاء کی دو قسمیں ہیں : قضاء ِمعلق اور قضاء ِمبرم۔ قضاء ِمعلق یہ ہے کہ اس میں تبدیلی کا احتمال ہوتاہے جبکہ قضاء ِمبرم وہ ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: [ترجمۂ کنزالایمان:]میرے یہاں بات بدلتی نہیں ۔ یہ قضائے مبرم کی مثال ہے جبکہ قضائے معلق کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :[ترجمۂ کنز الایمان:] اللہ جو چاہے مٹاتا اور ثابت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے۔ میرے پیر بزرگوار قدّس سرہ فرماتے تھے کہ حضرت پیر سید محی الدین جیلانی قدس سرہ الربانی نے اپنے بعض رسالوں میں تحریر کیا کہ قضائے مبرم میں کسی کو تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں مگر مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ اگر چاہوں تو اس میں تصرف کروں ۔ ان کی اس بات سے میرے پیر بزرگوار بہت تعجب کرتے تھے اور اس کو بعید جانتے تھے اور یہ بات اس فقیر (شیخ احمد فاروقی سرہندی) کے ذہن میں کافی مدت تک رہی یہاں تک کہ حق تَعَالٰی نے مجھے بھی اس دولت عظمیٰ سے مشرف فرمادیا(یعنی شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی دعا سے بھی قضائے مبرم میں تبدیلی ہوگئی ،مترجم )، چنانچہ ایک دن میرے کسی دوست کے ساتھ حاکم وقت کی طرف سے کوئی مسئلہ پیش آگیا تو میں نے اس کے دفع کے لئے گریہ وزاری کی اور خوب خشوع وخضوع کیا تو جانب ِحق تعالی کی طرف سے بطورِ کشف والہام مجھے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ لوح ِ محفوظ میں معلق نہیں کہ کسی چیز سے بآسانی ٹل جائے، پس مجھے ایک قسم کی مایوسی ہوئی تو پیر دستگیر سید محی الدین قدس سرہ النورانی کا ارشاد دوبارہ یاد آگیا تو میں نے دوبارہ حق تعالی کی بارگاہ میں آہ وزاری اور عجزوانکساری کی تو مجھے محض فضل وکرم سے یہ باتمعلوم ہوگئی کہ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں ایک قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق لوح محفوظ میں ظاہر کی گئی ہے اور فرشتگانِ الٰہی کو اس کی اطلاع دی گئی ہے اور دوسری قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک ہے اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے،(در حقیقت یہ قسم نہ تو مطلق معلق ہے اور نہ مطلق مبرم بلکہ مشابہ بہ مبرم ہے جو کہ بظاہر لوح محفوظ میں مطلق نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں مشروط بشرط ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ خاصانِ خدا کی دعاؤں سے ٹل جاتی ہے، حاشیہ بر مکتوب بتصرف ما) اور یہ بھی قضائے معلق کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے۔

پس اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضرت پیر دستگیر علیہ الرحمہ کا ارشاد(میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں ، مترجم) اس قسم اخیر(یعنی مشابہ بہ مبرم) کے بارے میں ہے نہ کہ مبرم حقیقی کے بارے میں ، کیونکہ اس(مبرم حقیقی) میں تصرف وتبدیلی عقلی و شرعی لحاظ سے محال ہے، حق بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں کہ جو اس قضائ(مشابہ بہ مبرم) کی خبر رکھتے ہیں اور کیونکر رکھ سکتے ہیں جبکہ اس میں تصرف نہیں ہوپاتا ، اور میرے دوست کو جو آزمائش پیش آئی تھی اسی کے سبب سے میں نے اس قسم کو دریافت کیا اور حضرت حق سبحانہ وتعالی نے اس فقیر کی دعا سے اس کی آزمائش کو دور کردیا۔

54’’کنزالعمال‘‘،کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷۔ بألفاظ متقاربۃ.

قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن في ’’المعتمدالمستند‘‘حاشیہ نمبر ۷۷ ، ص۵۴ ۔۵۵: (أقول: أخرج أبو الشیخ في کتاب الثواب عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم: ((أکثرمن الدعاء،فإنّ الدعاءیردّالقضاءالمبرم))،وأخرج الدیلمي في’’مسندالفردوس‘‘عن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ تعالی عنہ وابن عساکرعن نمیربن أوس الأشعريم رسلًاکِلاہماعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((الدعاء جند من أجناد اللّٰہ مجند یردّ القضاء بعد أن یبرم))۔ وتحقیق المقام علی ما ألہمني الملک العلام أنّ الأحکام الإلہیۃ التشریعیۃ کما تأتي علی وجہین: (۱)مطلق عن التقیید بوقت کعامتہا و(۲)مقید بہ کقولہ تعالی: { فَاِنْ  شَهِدُوْا  فَاَمْسِكُوْهُنَّ  فِی  الْبُیُوْتِ  حَتّٰى  یَتَوَفّٰهُنَّ  الْمَوْتُ  اَوْ  یَجْعَلَ  اللّٰهُ  لَهُنَّ  سَبِیْلًا(۱۵)}، پ۴، النساء: ۱۵، فلما نزل حدّ الزنا قال صلّی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم: ((خذوا عنّي قد جعل اللّٰہ لہنّ سبیلاالحدیث۔ رواہ ’’مسلم‘‘کتاب الحدود،باب حدالزنا، الحدیث: ۱۶۹۰، ص۹۲۸ وغیرہ عن عبادۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ۔ والمطلق یکون في علم اللّٰہ مؤبّدًا أو مقیدًا، وہذا الأخیر ہوالذي یأتیہ النسخ فیظنّ أنّ الحکم تبدل؛ لأنّ المطلق یکون ظاہرہ التأبید حتی سبق إلی بعض الخواطر أنّ النسخ رفع الحکم، وإنّما ہو بیان مدتہ عندنا وعند المحققین، کذلک الأحکام التکوینیۃ سواء بسواء، فمقید صراحۃ کأن یقال لملک الموت علیہ الصلاۃ والسلام: اقبض روح فلان في الوقت الفلاني إلاّ أن یدعو فلان، مطلق نافذ في علم اللّٰہ تعالی وہو المبرم حقیقۃ، ومصروف بدعاء مثلا وہو المعلق الشبیہ بالمبرم، فیکون مبرماً في ظن الخلق لعدم الإشارۃ إلی التقیید معلّقا في الواقع، فالمراد في الحدیث الشریف ہو ہذا، أمّا المبرم الحقیقي فلا رادّ لقضائہ ولا معقب لحکمہ وإلاّ لزم الجہل، تعالی اللّٰہ عن ذلک علواً کبیراً، فاحفظ ہذا فلعلک لا تجدہ إلاّ منّا، وباللّٰہ التوفیق. ۱۲ إمام أہل السنۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ.

یعنی: (میں کہتا ہوں ): ابو الشیخ نے کتاب الثواب میں انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کی انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ دعا کی کثرت کرو اس لئے کہ دعا قضاء مبرم کو ٹال دیتی ہے‘‘۔ اوردیلمی نے ’’مسند الفردوس‘‘ میں ابو موسی اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے اور ابن عساکر نے نمیر بن اوس اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مرسلا دونوں نے نبی علیہ السلام سے روایت کیا فرمایا: ’’دعا اللہ کے لشکروں میں سے ایک ساز وسامان والا لشکر ہے جو قضاء کو مبرم ہونے کے بعد ٹال دیتا ہے‘‘۔ اور اس مقام کی تحقیق اس طور پر جو مجھے ملک علام (اللہ تبارک وتعالی) نے الہام کی وہ یہ ہے کہ احکامِ الہیہ تشریعیہ جیسا کہ آگے آئیں گے دو وجہوں پر ہیں پہلا مطلق جس میں کسی وقت کی قید نہیں جیسے عام احکام (دوسرا) وقت کے ساتھ مقید جیسے اللہ تعالی کا فرمان:ترجمۂ کنزالایمان، سورۃ النساء آیت ۱۵: پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا لے یا اللہ اُن کی کچھ راہ نکالے۔ تو جب قرآن میں زنا کی حد نازل ہوئی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے لے لو بیشک اللہ نے ان عورتوں کے لئے سبیل مقرر فرمائی ۔ الحدیث۔ اس کو روایت کیا مسلم وغیرہ نے عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے، اور مطلق علم الٰہی میں یا تو مؤبد ہوتا ہے یعنی ہر زمانے کے لئے (یامقید) یعنی کسی خاص زمانے کے لئے اور یہی اخیر حکم وہ ہے جس میں نسخ آتا ہے، گمان یہ ہوتا ہے کہ حکم بدل گیا اس لئے کہ مطلق (جس میں کسی وقت کی قید نہ ہو) کا ظاہر مؤبد ہے یعنی ہمیشہ کے لئے ہونا ہے یہا ں تک کہ کچھ اذہان کی طرف اس خیال نے سبقت کی کہ نسخ حکم کو اٹھا دینے کا نام ہے اور ہمارے نزدیک اور محققین کے نزدیک وہ حکم کی مدت بیان کرنا ہے، اور احکام تکوینیہ بھی اسی طرح برابر (یعنی دو قسموں پر) ہیں تو ایک وہ جو صراحۃً مقید ہو جیسے ملک الموت علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا جائے کہ فلاں کی روح فلاں وقت میں قبض کر مگر یہ کہ فلاں اس کے حق میں دعا کرے( تو اس وقت میں قبض نہ کر)، اور دوسرا مطلق ہے جو علمِ الٰہی میں نافذ ہونے والا ہے اور یہی حقیقۃً مبرم ہے ،اور قضاء کی ایک قسم وہ ہے جو مثلاً کسی کی دعا سے ٹل جائے اور وہ معلق مشابہ مبرم ہے تو (یہ قسم) مخلوق کے گمان میں مبرم ہوتی ہے اس لئے کہ اس میں قید وقت کا اشارہ نہیں اور واقع میں (کسی شرط پر) معلق ہوتی ہے اور مراد حدیث شریف میں یہی ہے، رہا مبرم حقیقی تو (وہ مراد نہیں ) اس لئے کہ اللہ تعالی کی قضاء ِ(مبرم) کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور کوئی اس کے حکم کو باطل کرنے والا نہیں ورنہ جہل باری لازم آئے گا اللہ تَعَالٰی اس سے بہت بلند ہے اس کو یاد رکھو اس لئے کہ شاید یہ تمہیں ہمارے سوا کسی اور سے نہ ملے۔ اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔ ۱۲

وانظر لتفصیل ہذہ المسألۃ: ’’أحسن الوعاءلآداب الدعاء‘‘و’’ذیل المدعالأحسن الوعاء‘‘،ص۱۲۷۔۱۳۱۔

55 عن ثوبان قال: اجتمع أربعون رجلاً من الصحابۃ ینظرون في القدر والجبر، فیہم أبو بکر وعمر رضي اللّٰہ تعالی عنہما، فنزل الروح الأمین جبریل فقال: یا محمد! اخرج علی أمتک فقد أحدثوا، فخرج علیہم في ساعۃ لم یکن یخرج علیہم فیھا، فأنکروا ذلک منہ وخرج علیہم ملتمعاً لونہ متوردۃً وجنتاہ کأنّما تفقأ بحبّ الرمان الحامض، فنہضوا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حاسرین أذرعہم ترعد أکفہم و أذرعہم، فقالوا: تبنا إلی اللّٰہ و رسولہ فقال: ((أولی لکم إن کدتم لتوجبون، أتاني الروح الأمین فقال: أخرج علی أمت کیامحمدفقدأحدثت))۔رواہ الطبراني في’’المعجم الکبیر‘‘،الحدیث: ۱۴۲۳، ج۲، ص۹۵۔عن أبي ہریرۃ قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی احمرّ وجہہ حتی کأنّما فُقِیء في وجنتَیْہ الرمّانُ، فقال: ((أبہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنّما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر، عزمت علیکم ألاّ تنازعوا فیہ))۔’’سنن الترمذي‘‘،کتاب القدر،باب ماجاءمن التشدید۔۔۔إلخ،الحدیث:۲۱۴۰، ج۴، ص۵۱۔

56… ہم اور آپ۔

57… ایک طرح کا اختیار۔

58في ’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۴۲۔۴۳: (فللعباد أفعال اختیاریۃ یثابون علیہا إن کانت طاعۃ، ویعاقبون علیہا إن کانت معصیۃ، لا کما زعمت الجبریۃ أن لا فعل للعبد أصلاً کسباً ولا خلقاً، وأنّ حرکاتہ بمنزلۃ حرکات الجمادات لا قدرۃَ لہ علیہا، لا مؤثرۃ، ولا کاسبۃ في مقام الاعتبار ولا قصد ولا إرادۃ ولا اختیار، وہذا باطل، لأنّا نفرق بین حرکۃ البطش وحرکۃ الرعش، ونعلم أنّ الأوّل باختیارہ دون الثاني لاضطرارہ في ’’الحدیقۃالندیۃ‘‘، ج۱،ص۲۶۲:(للعباد) المکلفین بالأمر والنہي(اختیارات لأفعالہم بہا، یثابون) أي: یثیبہم اللّٰہ تعالی یوم القیامۃ علی ما صدر منہم من الخیر ممّا خلقہ اللّٰہ تعالی منسوباً إلیہم بسبب خلق اللّٰہ تعالی إرادتہم لہ، (علیہا)، أي: لأجل تلک الاختیارات، (یعاقبون) أي: یعاقبہم اللّٰہ تعالی یوم القیامۃ حیث صدر منہم بہا أفعالاً من الشر خلقہا تعالی لہم منسوبۃ إلیہم بسبب خلقہ إرادتہم لہا وحیث ثبت أنّ للإنسان اختیاراً خلقہ اللّٰہ تعالی فیہ، فقد انتفی مذہب الجبریۃ القائلین بأنّ الإنسان مجبور علی فعل الخیر والشر، ثم إنّ ذلک الاختیار الذي خلقہ اللّٰہ تعالی في الإنسان بخلق اللّٰہ تعالی عندہ لا بہ، ولا فیہ، ولا منہ أفعال الخیر والشر، فینسبہا للإنسان فیکون اختیار الإنسان المخلوق فیہ بمنزلۃ یدہ المخلوقۃ لہ بحیث لا تأثیر

لذلک في شيء مطلقاً غیر مجرّد قبول صحۃ النسبۃ بخلق اللّٰہ تعالی فیہ صحۃ ذلک القبول، فانت فی مذہب القدریۃ القائلین بتأثیر قدرۃ العبد في الخیر والشر)، ملتقطاً۔

59 وفي ’’الحدیقۃالندیۃ‘‘، ج۱، ص۵۰۹: (أنّ علم اللّٰہ تعالی بما یفعلہ العبد وإرادتہ لذلک، وکتبہ لہ في اللوح المحفوظ لیس بجبر للعبد علی فعلہ ذلک الذي فعلہ العبد باختیارہ وإرادتہ)۔ وفیہا: (وذلک لأنّ علم اللّٰہ تعالی وتقدیرہ لایخرجان العبد إلی حیز الاضطرار ولا یسلبان عنہ الاختیاروانظر للتفصیل رسالۃ الإمام أہل السنۃ علیہ الرحمۃ: ’’ثلجالصدرلإیمانالقدر‘‘،ج۲۹۔

60مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘-وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَؕ-} پ۵، النسآء : ۷۹۔

{ وَ اَنَّا لَا نَدْرِیْۤ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًاۙ(۱۰)} پ۲۹، الجن: ۱۰۔

وفي ’’تفسیرابن کثیر‘‘، ج۸، ص ۲۵۳، تحت الآیۃ: (وہذا من أدبہم في العبارۃ حیث أسندوا الشر إلی غیر فاعل، والخیر أضافوہ إلی اللّٰہ عز وجل۔ وقد ورد في الصحیح: ((والشرّ لیس إلیک))۔

وفي ’’التفسیرالکبیر‘‘پ۱۶، الکہف، ج۷، ص۴۹۲۔۴۹۳، تحت الآیۃ: ۷۹۔۸۲: (بقي في الآیۃ سؤال، وہو أنّہ قال: { فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا }، وقال: {فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً }، وقال: { فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا }، کیف اختلفت الإضافۃ في ہذہ الإرادات الثلاث وہي کلّہا في قصۃ واحدۃ وفعل واحد؟ والجواب: أنّہ لما ذکر العیب أضافہ إلی إرادۃ نفسہ فقال: أردت أن أعیبہا، ولما ذکر القتل عبّر عن نفسہ بلفظ الجمع تنبیہاً علی أنّہ من العظماء في علوم الحکمۃ، فلم یقدم علی ہذا القتل إلاّ لحکمۃ عالیۃ، ولما ذکر رعایۃ مصالح الیتیمین لأجل صلاح أبیہما أضافہ إلی اللّٰہ تعالی، لأنّ المتکفل بمصالح الأبناء لرعایۃ حق الآباء لیس إلاّ اللّٰہ سبحانہ وتعالی

61في ’’شعب الإیمان‘‘،باب في الإیمان باللّٰہ عزوجل،فصل في معرفۃأسماءاللّٰہ وصفاتہ،ج۱، ص۱۱۳: (وہو المتعالي عن الحدود والجہات، والأقطار، والغایات، المستغني عن الأماکن والأزمان، لا تنالہ الحاجات، ولا تمسّہ المنافع والمضرّات، ولا تلحقہ اللّذّات، ولا الدّواعي، ولا الشہوات، ولا یجوز علیہ شيء ممّا جاز علی المحدثات فدلّ علی حدوثہا، ومعناہ أنّہ لایجوز علیہ الحرکۃ ولا السکون، والاجتماع، والافتراق، والمحاذاۃ، والمقابلۃ، والمماسۃ، والمجاوزۃ، ولا قیام شيء حادث بہ ولا بطلان صفۃأزلیۃ عنہ،ولا یصح علیہ العدم

وفي ’’شرح المواقف‘‘،المقصدالأول، ج۸، ص۲۲: (أنّہ تعالی لیس في جہۃ) من الجہات (ولا في مکان) من الأمکنۃ وص ۳۱: ((أنّہ تعالی لیس في زمان) أي: لیس وجودہ وجوداً زمانیاً و’’شرحالمقاصد‘‘، ج۲، ص۲۷۰، : (طریقۃ أہل السنّۃ أنّ العالم حادث والصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ لیست عینہ ولا غیرہ، وواحد لا شبۃ لہ ولا ضدّ ولا ندّ ولانہایۃ لہ ولا صورۃ ولا حدّ ولا یحلّ في شيء ولا یقوم بہ حادث ولا یصحّ علیہ الحرکۃ والانتقال ولا الجہل ولا الکذب ولا النقص وأنہ یری في الآخرۃ

ترجمہ: اہل سنت وجماعت کا راستہ یہ ہے کہ بے شک عالم حادث ہے اور صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے جو نہ اس کا عین ہیں نہ غیر۔ وہ واحد ہے ، نہ اس کی کوئی مثل ہے نہ مقابل نہ شریک ، نہ انتہا ، نہ صورت ، نہ حد ، نہ وہ کسی میں حلول کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ کوئی حادث قائم ہوتا ہے، نہ اس پر حرکت صحیح ، نہ انتقال ، نہ جہالت ، نہ جھوٹ اور نہ نقص۔ اور بے شک آخرت میں اس کو دیکھا جائے گا ۔

’’شرح المقاصد‘‘،المبحث الثامن منح کمالمؤمن۔۔۔إلخ، ج۳، ص۴۶۴۔۴۶۵۔ و’’الفتاویالرضویۃ‘‘، ج۱۵، ۵۱۷۔

وفي ’’المعتقدالمنتقد‘‘،ص ۶۴: (ولما ثبت انتفاء الجسمیۃ ثبت انتفاء لوازمہا، فلیس سبحانہ بذي لون، ولا رائحۃ، ولا صورۃ، ولا شکل۔۔۔ إلخ ملتقطاً۔

62 في ’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘،مطلب: فيرؤیۃاللّٰہ تعالی في الدنیا،ص۲۰۰: (الرؤیۃ وإن کانت ممکنۃ عقلاً وشرعاً عند أہل السنۃ لکنّہا لم تقع في ہذہ الدار لغیر نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وکذا لہ علی قول علیہ بعض الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم لکنّ جمہور أہل السنۃ علی وقوعہا لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ المعراج بالعینوقال في مقام آخر، مطلب: علی أنّہ لا خلاف بین السلف و الخلف في۔۔۔الخ،ص۲۰۲:(والإمام الرباني المترجم بشیخ الکل في الکل أبوالقاسم القشیري رحمہ اللّٰہ تعالی یجزم بأنّہ لا یجوز وقوعہا في الدنیا لأحد غیر نبینا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ولا علی وجہ الکرامۃ، وادّعی أنّ الأمۃ اجتمعت علی ذلکوقال في مقام آخر، ص۲۸۸:(وخصّ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالرؤیۃ لیلۃ الإسراء بعین بصرہ علی الأصحّ کرامۃً لہ

وفي ’’المعتقدالمنتقد‘‘، ص۵۶: (أنّ رؤیتنا لہ سبحانہ جائزۃ عقلاً في الدنیا والآخرۃ۔ واتفقوا أہل السنۃ علی وقوعہا في الآخرۃ، واختلفوا في وقوعہا في الدنیا۔ قال صاحب الکنز: قد صحّ وقوعہا لہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم، وہذا قول جمہور أہل السنۃ وہو الصحیح، وہو مذہب ابن عباس، وأنس وأحد القولین لابن مسعود، وأبي ہریرۃ وأبي ذر، وعکرمۃ والحسن وأحمد بن حنبل وأبي الحسن الأشعري وغیرہم ملتقطاً۔وقال الإمام النووي في ’’شرح مسلم‘‘،کتاب الإیمان،باب معنی قولاللّٰہ عزوجل { وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ(۱۳)۔۔۔إلخ}: (الراجح عن أکثر العلماء أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی ربہ بعیني رأسہ لیلۃ الإسراء)، ج۱،ص۹۷۔انظر للتفصیل: ’’شرح الإمامالنووي‘‘،ص۹۷، و’’الشفاء‘‘للقاضي، ج۱، ص۱۹۵، و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘،الرسالۃ: ’’منبہ المنیۃبوصول الحبیب إلی العرش والرؤیۃ‘‘، ج۳۰، ص۶۳۷۔

63{ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ(۲۳)} پ۲۹، القیامۃ: ۲۲۔۲۳۔عن أبي ہریرۃ، أنّ الناس قالوا: یا رسول اللّٰہ! ہل نری ربنا یوم القیامۃ؟ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((ہل تضارّون في القمر لیلۃ البدر؟)) قالوا: لا یا رسول اللّٰہ، قال: ((فہل تضارون في الشمس لیس دونہا سحاب؟)) قالوا:لا یا رسول اللّٰہ، قال: ((فإنکم ترونہ کذلک))۔ ’’صحیح البخاري‘‘،کتاب التوحید،باب قول اللّٰہ تعالٰی { وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) ۔۔۔إلخ} الحدیث: ۷۴۳۷، ج۴، ص۵۵۱۔في ’’الفقہ الأکبر‘‘، ص۸۳: (واللّٰہ یری في الآخرۃ، ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہموفي’’شرح النووي‘‘: (اعلم أنّ مذہب أہل السنۃبأجمعہم أنّ رؤیۃاللّٰہ تعالی ممکنۃغیرمستحیلۃعقلاً،وأجمعواأیضاًعلی وقوعہافيالآخرۃ، وأنّ المؤمنین یرون اللّٰہ تعالی دون الکافرین، وزعمت طوائف من أہل البدع:المعتزلۃ والخوارج وبعض المرجئۃ، أنّ اللّٰہ تعالی لا یراہ أحد من خلقہ، وأنّ رؤیتہ مستحیلۃ عقلاً، وہذا الذی قالوہ خطأ صریح وجہل قبیح، وقد تظاہرت أدلۃ الکتاب والسنۃ وإجماع الصحابۃ فمن بعدہم من سلف الأمّۃ علی إثبات رؤیۃ اللّٰہ تعالی في الآخرۃ للمؤمنین، ورواہا نحو من عشرین صحابیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وآیات القرآن فیہا مشہورۃ)۔(’’شرح النووي‘‘،کتاب الإیمان،باب إثبات رؤیۃالمؤمنین في الآخرۃربہم سبحانہ وتعالی: ج۱، ص۹۹)۔

64… … وفي ’’المعتقدالمنتقد‘‘،ص۵۸: (وأمّا رؤیاہ سبحانہ في المنام جائزۃ عند الجمھور، لأنّہا نوع مشاھدۃ بالقلب، ولا استحالۃ فیہ، وواقعۃ کما حکیت عن کثیر من السلف منہم أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل رضي اللّٰہ تعالی عنہما، وذکر القاضي الإجماع علی أنّ رؤیتہ تعالی مناماً جائزۃ وإن کان بوصف لا یلیق بہ تعالی ملتقطاً۔

65ابو حنیفہ نعمان بن ثابت۔

66في’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۱۲۴:(رؤیۃ اللّٰہ سبحانہ وتعالی في المنام، فالأکثرون علی جوازہا من غیر کیفیۃ وجہۃ وہیئۃ أیضاً في ہذا المرام، فقد نقل أنّ الإمام أبا حنیفۃ قال: رأیت رب العزۃ في المنام تسعاً وتسعین مرۃ، ثم رآہ مرۃ أخری تمام المائۃ و قصتہا طویلۃ لا یسعہا ہذا المقام

67في’’منح الروض الأزہر‘‘،ص۸۳: (واللّٰہ یری في الآخرۃ)أي: یوم القیامۃ، (ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم بلا تشبیہ) أي: رؤیۃ مقرونۃ بتنزیہ لا مکنونۃ بتشبیہ (ولا کیفیۃ) أي: في الصورۃ (ولا کمیۃ) أي: في الہیئۃ المنظورۃ =

(ولا یکون بینہ وبین خلقہ مسافۃ) أي: لا في غایۃ من القرب ولا في نہایۃ من البعد، ولا یوصف بالاتصال ولا بنعت الانفصال ولا بالحلول والاتّحاد کما یقولہ الوجودیۃ المائلون إلی الاتّحاد، فذات رؤیتہ ثابت بالکتاب والسنّۃ إلاّ أنّہا متشابہۃ من حیث الجہۃ والکمیۃ والکیفیۃ، فنثبت ما أثبتہ النقل و ننفي عنہ ما نزّہہ العقل کما أشار إلی ہذا المعنی قولہ تعالی:{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-} أي: لا تحیط بہ الأبصار في مقام الإبصار، فإنّ الإدراک أخصّ من الرؤیۃ والتشابہ فیما یرجع إلی الوصف الذي یمنعہ العقل لا یقدح في العلم بالأصل المطابق للنقل۔ وقال الإمام الأعظم رحمہ اللّٰہ فيکتابہ ’’الوصیۃ‘‘: ولقاءاللّٰہ تعالی لأہل الجنّۃبلاکیف ولاتشبیہ ولاجہۃحقّ،انتہی۔والمعنی أنّ ہی حصل النظرب أنی نکشف انکشافاًتاماًبالبصرمنزہاًعنالمقابلۃوالجہۃوالہیئۃ ملتقطاً۔

انظر للتفصیل : ’’الحدیقۃالندیۃ‘‘شرح’’الطریقۃالمحمدیۃ‘‘، ج۱، ص۲۵۸۔۲۶۱۔

و’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘،مبحث رؤیۃاللّٰہ تعالی والدلیل علیھا، ص۷۴۔۷۵۔

و’’النبراس‘‘،الکلام في رؤیۃالباري سبحانہ، ص۱۶۱، ۱۶۷۔

68{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۰۳)} پ۷، الأنعام: ۱۰۳۔

69{ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶)} پ۳۰، البروج: ۱۶۔ في ’’حاشیۃالصاوي‘‘،ج۶، ص۲۳۴۲: (قولہ: فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶)} أتی بصیغۃ { فَعَّالٌ } إشارۃ للکثرۃ، والمعنی: یفعل ما یرید، ولا یعترض علیہ ولا یغلبہ غالب)، ملتقطاً۔

70{ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(۱۰۷)} پ۱۲، ہود: ۱۰۷۔ في ’’تفسیرالطبري‘‘،ج۷، ص۱۱۷:وقولہ: { اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(۱۰۷)}، یقول تعالی ذکرہ: إنّ ربک، یا محمد، لا یمنعہ مانع من فعل ما أراد فعلہ بمن عصاہ وخالف أمرہ من الانتقام منہ، ولکنّہ یفعل ما یشاء فعلہ، فیمضي فیہم وفیمن شاء من خلقہ فعلُہ وقضاؤہ).

71{ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-} پ۳، البقرۃ: ۲۵۵۔

72{ وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا۠(۱۲۶)}۔ پ ۵، النساء: ۱۲۶۔

73{ اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ }پ۲۶، الأحقاف: ۳۳۔ { وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ(۳۸)} پ۲۶، ق: ۳۸۔

74{ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱)} پ۱، الفاتحۃ:۱۔

75{ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ(۲)}پ۱، الفاتحۃ: ۲۔{ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا(۴۱)} پ۲۲، فاطر: ۴۱۔عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قدم علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سبي،فإذا امرأۃ من السبي قد تحلب ثدیہا تسقي، إذا وجدت صبیا في السبي أخذتہ، فألصقتہ ببطنہا وأرضعتہ، فقال لنا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أترون ہذہ طارحۃ ولدہا في النار؟)) قلنا: لا، وہي تقدر علی أن لا تطرحہ، فقال: ((لَلّٰہُ أرحم بعبادہ من ہذہ بولدہا))۔’’صحیح البخاري‘‘،کتاب الأدب،باب رحمۃالولدوتقبیلہ ومعانقتہ،الحدیث: ۵۹۹۹، ج۴، ص۱۰۰۔

76فقال علیہ الصلوۃ والسلام حاکیاً عنہ سبحانہ: ((أناعندالمنکسرۃقلوبہ ملأجلي))۔’’التفسیرالکبیر‘‘،ج۱، ص۴۳۰، تحت الآیۃ: ۳۴۔

77{ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ(۲۵۵)}پ۳، البقرۃ: ۲۵۵۔

78{ هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُؕ-} پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۶۔

79{ غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-} پ۲۴، المؤمن: ۳۔

80{ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(۱۰۲)} پ۱۲، ھود: ۱۰۲۔ { اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌؕ(۱۲)} پ۳۰، البروج: ۱۲۔

81{ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُؕ-} پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۲۶۔

82{ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﳲ } پ۲۲، فاطر: ۸۔ { وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ(۳۶) وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّ} پ۲۴، الزمر: ۳۶۔۳۷۔

83{ قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ}۔ پ۳، اٰل عمرٰن: ۲۶۔

84{ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۚ-} پ۵، النسآء : ۴۰۔

{ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۴۴)} پ۱۱، یونس: ۴۴۔

{ وَ مَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۠(۲۹)} پ۲۶، ق:۲۹۔في’’تفسیرالطبري‘‘، ج۱۱،ص۴۲۵، تحت الآیۃ: (قولہ: { وَ مَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۠(۲۹)} یقول: ولا أنا بمعاقب أحدًا من خلقي بجرم غیرہ، ولاحامل علی أحد منہم ذنب غیرہ فمعذّبہ بہ

85 { وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ(۲۳)} پ۲۲، سبا: ۲۳۔

86{ اَلَاۤ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطٌ۠(۵۴)} پ۲۵، حمٓ السجدۃ: ۵۴۔

87{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ- } پ۷، الانعام: ۱۰۳۔

88{ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَؕ-وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۷)} پ۷، الأنعام: ۱۷۔

{ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَۚ-وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖؕ-} پ۱۱، یونس: ۱۰۷۔

89وفي ’’سنن الترمذي‘‘،أحادیث شتی،باب فی العفووالعافیۃ، ج۵، ص ۳۴۳، الحدیث: ۳۶۰۹:عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((ثلاثۃلاتردّدعوتہم الصائم حتی یفطروالإمام العادل ودعوۃالمظلوم یرفعہ االلّٰہ فوق الغمام ویفتح لہاأبواب السماءویقول الرب: وعزتي لأنصرنّک ولوبعدحین))۔و’’سنن ابن ماجہ‘‘،کتاب الصیام،باب: في الصائم لاتردّدعوتہ، ج ۲، ص۳۴۹-۳۵۰ ، الحدیث: ۱۷۵۲۔

90{ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ(۹۵)} پ۷، المائدۃ: ۹۵۔

عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((قال ربکم: وعزتي وجلالي لأنتقمنّ من الظالم في عاجلہ وآجلہ، ولأنتقمنّ ممّن رأی مظلوماً فقدر أن ینصرہ فلم یفعل))۔’’المعجم الکبیر‘‘للطبراني، الحدیث: ۱۰۶۵۲، ج۱۰، ص۲۷۸۔

91وفي ’’شرح السنۃ‘‘للبغوي،کتاب الإیمان،باب الإیمان بالقدر ج۱، ص۱۴۰-۱۴۱: (قال الشیخ رحمہ اللّٰہ: الإیمان بالقدر فرض لازم، وہو أن یعتقد أنّ اللّٰہ تعالی خالقُ أعمال العباد، خیرہا وشرّہا، کتبہا علیہم في اللوح المحفوظ قبل أن خلقہم، قال اللّٰہ سبحانہ وتعالی:{ وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)} [الصافات: ۹۶] وقال اللّٰہ عزوجل:{ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ } [الرعد: ۱۶]، وقال عزوجل: { اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(۴۹)} [القمر:۴۹] فالإیمان والکفر، والطاعۃ والمعصیۃ، کلّہا بقضاء اللّٰہ وقدرہ، وإرادتہ ومشیئتہ، غیر أنّہ یرضی الإیمان والطاعۃ، ووعد علیہما الثواب، ولا یرضی الکفر والمعصیۃ، وأوعد علیہما العقاب۔ وقال اللّٰہ سبحانہ وتعالی: { وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا۫-وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠(۲۵۳)}، { وَ مَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُؕ۩(۱۸)} [الحج:۱۸]،

وقال عزوجل: { وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا } [الأنعام:۱۲۵])۔انظرللتفصیل : ’’التفسیرالکبیر‘‘،ج۲، ص۵۲۹، تحت الآیۃ: ۲۵۳: (احتج القائلون بأنّ کلّ الحوادث بقضاء اللّٰہ وقدرہ.... إلخوفي ’’المسامرۃ‘‘بشرح’’المسایرۃ‘‘،ص۱۳۰: (أنّ فعل العبد وإن کان کسباً لہ فہو) واقع (بمشیئۃ اللّٰہ) تعالی (وإرادتہ

وفي’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۴۱: (ولا یکون في الدنیا ولا في الآخرۃ شيء إلاّ بمشیئتہ) أي: مقروناً بإرادتہ۔

92{ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-} پ۳، البقرۃ: ۲۸۶۔

93 في ’’الحدیقۃالندیۃ‘‘شرح’’الطریقۃالمحمدیۃ‘‘، ج۱، ص۲۴۹: (ولا یجب) أي: لا یلزم (علیہ) تعالی (شيئ) لغیرہ سبحانہ من ثواب أو عقاب أو فعل صلاح أو أصلح أو فساد أو أفسد بل ہو الفاعل العدل المختار، ویخلق اللّٰہ ما یشاء ویختار، وفي ’’شرح الطوالع‘‘للإصفہاني: وأمّاأصح ابن افقالوا: الثواب علی الطاعۃفضل من اللّٰہ تعالی والعقاب علی المعصیۃعدل منہ تعالی،وعمل الطاعۃدلیل علی حصول الثواب وفعل المعصیۃعلامۃ العقاب، ولا یکون الثواب علی الطاعۃ واجباً علی اللّٰہ تعالی ولا العقاب علی المعصیۃ؛ لأنّہ لا یجب علی اللّٰہ شيئ، وکلّ میسر لما خلق لہ فالمطیع موفق میسر لما خلق لہ وہو الطاعۃ، والعاصي میسر لما خلق لہ وہوالمعصیۃ ولیس للعبد في ذلک تأثیر

94 { فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶)} پ۳۰، البروج: ۱۶۔ في’’حاشیۃالصاوي‘‘،پ۳۰، البروج:تحت الآیۃ:۱۶(قولہ: { فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶)} أتی بصیغۃ { فَعَّالٌ } إشارۃ للکـثرۃ، والمعنی: یفعل ما یرید، ولا یعترض علیہ ولا یغلبہ غالب، فیدخل أولیائہ الجنۃ لا یمنعہ مانع، ویدخل أعداء ہ النار لا ینصرہم منہ ناصر، وفي ہذہ الآیۃ دلیل علی أنّ جمیع أفعال العباد مخلوقۃ للّٰہ تعالی، ولا یجب علیہ شيئ، لأنّ أفعالہ بحسب إرادتہ)۔ ج۶، ص۲۳۴۲۔

95 { لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-} پ۱۱، یونس: ۶۴۔

{ مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ } پ۲۶، ق: ۲۹۔ في ’’تفسیر روح البیان‘‘،پ۲۶، ق: ۲۹، ج۹، ص۱۲۵، تحت الآیۃ: ({مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ } أي: لا یغیر قولي في الوعد والوعید

وفي ’’تفسیرابنکثیر‘‘، پ۱۱، یونس، تحت الآیۃ:۶۴: (قولہ: { لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-}أي: ہذا الوعد لا یبدل ولا یخلف ولا یغیر بل ہو مقرر مثبت کائن لا محالۃ)۔ ج۴، ص۲۴۵۔

وفي ’’تفسیرالطبري‘‘،تحت الآیۃ: ۶۴:(وأمّا قولہ: { لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-}، فإنّ معناہ: أنّ اللّٰہ تعالی لا خُلف لوعدہ، ولا تغییر لقولہ عمّا قال، ولکنّہ یمضي لخلقہ مواعیدَہ وینجزہا لہم)، ج۶، ص۵۸۲۔

96 { اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-} پ۵، النسآء: ۴۸۔

97في ’’المسامرۃ‘‘،للّٰہ تعالٰی في کلفعل حکمۃ،ص۲۱۵۔۲۱۶: (واعلم أنّ قولنا لہ) سبحانہ وتعالی (فيکل فعل حکمۃ ظہرت) تلک الحکمۃ (أو خفیت) فلم تظہر (لیس ہو) أي: الحکمۃ (بمعنی الغرض وتذکیر الضمیر باعتبار أنّ الحکمۃ معنی، ویصحّ أن یکون الضمیر لقولنا، أي: لیس قولنا إنّ لہ حکمۃ بمعنی أنّ لہ غرضا، ہذا (إن فسر) الغرض (بفائدۃ ترجع إلی الفاعل، فإنّ فعلہ تعالی وخلقہ العالم لا یعلل بالأغراض) بہذا التفسیر للغرض؛ (لأنّہ) أي: الفعل لغرض بہذا التفسیر یقتضي استکمال الفاعل بذلک الغرض؛ لأنّ حصولہ للفاعل أولی من عدمہ،۔۔۔ (وإن فسر) الغرض (بفائدۃ ترجع إلی غیرہ) تعالی، بأن یدرک رجوعہا إلی ذلک الغیر کما نقل عن الفقہاء من: أنّ أفعالہ تعالی لمصالح ترجع إلی العباد تفضّلاً منہ (فقد تنفي أیضاً إرادتہ من الفعل) نظراً إلی تفسیر الغرض بالعلۃ الغائیۃ التي تحمل الفاعلَ علی الفعل؛ لأنّہ یقتضي أن یکون حصولہ بالنسبۃ إلیہ تعالی أولی من لاحصولہ، فیلزم الاستکمال المحذور (وقد تجوز) إرادتہ من الفعل نظراً إلی أنّہ منفعۃ مترتبۃ علی الفعل، لا علۃ غائیۃ حاملۃ علی الفعل حتی یلزم الاستکمال المحذور (والحکمۃ علی ہذا) التفسیر (أعمّ منہ) أي: من الغرض؛ لأنّہا إذا نفیت إرادتہا من الفعل سمیت غرضاً، وإذا جوزت کانت حکمۃً لا غرضاً

98’’الفتاوی الرضویۃ‘‘،ج۱، ص۴۹۰۔ (رضا اکیڈمی بمبئی

99… … ’’ملفوظات ‘‘، حصہ ۴، ص ۴۶۲ ۔ یعنی: اس کا میرے حال کو جاننا یہی مجھے کفایت کرتا ہے میرے سوال کرنے سے ۔

100اپنی حاجت کے اِظہار کی وہاں کیا حاجت ہے!

102پ۱۷، الأنبیآء : ۶۹۔

103في ’’التفسیرالکبیر‘‘،پ۱۷، الأنبیاء، ج۸، ص۱۵۸، تحت الآیۃ: ۶۹: (أمّا کیفیۃ القصۃ فقال مقاتل: لما اجتمع نمرود وقومہ لإحراق إبراہیم حبسوہ في بیت وبنوا بنیاناً کالحظیرۃ ، وذلک قولہ: { قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْهُ فِی الْجَحِیْمِ(۹۷)}، ثم جمعوا لہ الحطب الکثیر حتی أنّ المرأۃ لو مرضت قالت: إن عافاني اللّٰہ لأجعلنّ حطباً لإبراہیم، ونقلوا لہ الحطب علی الدواب أربعین یوماً، فلمّا اشتعلت النار اشتدت وصار الہواء بحیث لو مرّ الطیر في أقصی الہواء لاحترق، ثم أخذوا إبراہیم علیہ السلام ورفعوہ علی رأس البنیان وقیدوہ، ثم اتخذوا منجنیقاً ووضعوہ فیہ مقیداً مغلولاً، فصاحت السماء والأرض ومن فیہا من الملائکۃ إلاّ الثقلین صیحۃ واحدۃ…، فلمّا أرادوا إلقاء ہ في النار…، وضعوہ في المنجنیق ورموا بہ النار، فأتاہ جبریل علیہ السلام وقال: یا إبراہیم ہل لک حاجۃ، قال: أما إلیک فلا؟ قال: فاسأل ربک، قال: حسبي من سؤالي، علمہ بحالي، فقال اللّٰہ تعالی: { قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹)}قال: ولم یبق یومئذ في الدنیا نار إلاّ طفئت ملتقطاً۔

104في ’’تفسیرابن کثیر‘‘،پ۱۷، الأنبیآء، ج۵، ص۳۰۹، تحت الآیۃ:۶۹،(قال ابن عباس، وأبو العالیۃ: لولا أنّ اللّٰہ عزوجل قال: { وَّ سَلٰمًا } لآذی إبراہیمَ بَرْدُہا)

Share