Book Name:Islam Mukamal Zabita e Hayat Hai
اس سے زِندگی، موت، آخرت سب سنبھل جاتی ہے۔(تفسیرِ نعیمی ،۴/۴۵۶-۴۵۵ملتقطاً)
یادرکھئے:دادا،دادی،نانا،نانی،چچا،پھوپھی،ماموں،خالہ وغیرہ کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
مکتبۃ المدینہ کی کتاب”بہشت کی کنجیاں“کے صفحہ نمبر 197پر لکھا ہے:رشتوں کو کاٹنا حرام اور جَہَنَّم میں لے جانے والا کام ہے،لہٰذا ہر مُسَلمان کو ہمیشہ اِس کا خیال رکھنا چاہیے کہ کسی رشتے دار سے تَعَلُّق نہ کاٹے بلکہ ہمیشہ اِس کو شش میں لگا رہے کہ رشتے داروں سے تَعَلُّق(Relation) قائم رہے اور کبھی بھی رشتہ کٹنے نہ پائے۔بعض لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ جو رشتے دار ہم سے تَعَلُّق رکھے گا، ہم بھی اُس سے تَعَلُّق رکھیں گے اور جو ہم سے کٹ جائے گا،ہم بھی اُس سے کٹ جائیں گے،یہ کہنا اور یہ طریقہ بھی اِسلام کے خِلاف ہے۔(مزید فرماتے ہیں:)رشتے داروں کے ساتھ تَعَلُّق کاٹ دینے کی ایک ہی صُورت جائز ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے مُعامَلے میں تَعَلُّق کاٹ دیا جائے،مثلاً کوئی رشتے داراگرچہ کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو،اگر وہ مُرْتَد(یعنی اسلام سے پھرجائے)یا گمراہ وبددِین ہوجائے تو پھر اُس سے تَعَلُّق کاٹ لینا واجب ہےیا کوئی رشتہ دار کسی گُناہِ کبیرہ میں گرِفتار ہے اور منع کرنے پر بھی باز نہیں آتابلکہ اپنے گُناہِ کبیرہ پرضِدکرکے اَڑا ہواہے تواُس سے بھی قطعِ تَعَلُّق کرلینا(رشتہ کاٹنا)ضروری ہے، کیونکہ اُس کے ساتھ تَعَلُّق رکھنا اور تَعاوُن کرنا گویا اُس کے گُناہِ کبیرہ میں شرکت کرنا ہے اور یہ ہر گز ہرگز جائز نہیں۔(بہشت کی کنجیاں،ص۱۹۷ملتقطاًوملخصاً) لیکن اگر یہ اس کے گناہ میں کسی طرح کی مدد نہیں کرتا اوراس کے گناہ کی وجہ سے اس کے اندر گناہوں کی نحوست پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو تو پھر رشتہ توڑلینا واجب نہیں ہے اور اگر ممکن ہو تو نیکی کی دعوت ضرور دیتا رہے تاکہ وہ گناہوں سے باز رہے ۔
یاد رہے!شریعت نے سب کے حقوق بیان کیے ہیں،مگر شریعت کے دائرے کے مطابق، والدین ہوں یا رشتہ دار ،بہن بھائی ہوں یا پڑوسی،حقوق کی ادائیگی اسی صورت میں ہے جب وہ شریعت کے مطابق ہو ،اگر والدین یا رشتہ دار یا دوست خلافِ شریعت کام کاحکم دیں تو پھر کسی کی فرمانبرداری نہیں کی جائے گی اور نہ رشتہ نبھایا جائے گا بلکہ اللہ پاک ا ور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری