Book Name:Dam Dam Dastgeer
کچھ دِن گزرے عیدُ الْفِطر کا دِن آیا،عِیْد کی نماز کے بعد دربار لگایا گیا، بادشاہ سلامت تخت پر تشریف فرما ہوئے، اِرْدگرد کے ملکوں سے آئے ہوئے تحفے بادشاہ سلامت کی خِدْمت میں پیش ہونا شروع ہوئے، اِسی دوران ایک شخص آ گے بڑھا، عرض کیا: عالی جاہ! میں فُلاں مُلْک کا قاصِد ہوں، ہمارے بادشاہ سلامت نے آپ کے لیے ایک اَنمول ہیرا تحفے میں بھیجا ہے،یہ کہہ کر اُس نے تحفے کا ڈِبَّہ کھولا اور بادشاہ سلامت کے سامنے کر دیا۔ بادشاہ اورنگ زیب رحمۃُ اللہ علیہ پھِر مسکرائے اور فرمایا:اس بار بھی میں نے تمہیں پہچان لیا ہے، تم وہی بہروپیے ہو۔ بیچارے کو پھِر بڑی شرمندگی ہوئی، اس نے دِل ہی دِل میں پکّا اِرادہ کر لیا کہ اس بار میں ایسا رُوپ دَھاروں گا کہ بادشاہ سلامت ہرگز مجھے پہچان نہیں پائیں گے۔
اس واقعے کو کافِی دِن گزر گئے، پھِر ایک دِن بادشاہ سلامت لشکر لے کر جنگ کے لیے روانہ ہوئے، بادشاہ اورنگ زیب رحمۃُ اللہ علیہ خُود بھی اللہ پاک کے نیک بندے تھے اور اِنہیں اَولیائے کرام سے عقیدت بھی بہت تھی،بادشاہ سلامت لشکر کے ساتھ سفر پر تھے، راستے میں جہاں جہاں کسی ولئ کامِل کا مزار آتا، بادشاہ سلامت لشکر کو روکتے، مزار شریف پر بااَدب حاضِری دیتے، فاتحہ پڑھتے اور اولیائے کرام کا فیضان لُوٹتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ چلتے چلتے ایک پہاڑی علاقے میں پہنچے، بادشاہ سلامت نے دیکھا: ایک پہاڑ کے دامن میں ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے۔بڑی حیرانی ہوئی کہ اس بے آباد علاقے میں اتنا ہجوم کس لیے؟ معلومات لی گئیں تو پتا چلا کہ کوئی اللہ پاک کا نیک بندہ ہے، جو اس پہاڑ کی غار میں رہتا ہے، بڑے باکمال بزرگ ہیں،ہر وقت اللہ پاک کی یاد میں آنکھیں بند کیے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ سب لوگ دُور دُور سے انہی کی زِیارت کے لیے حاضِر ہوئے ہیں۔ یہ سُن کر بادشاہ سلامت