Book Name:Muy e Mubarak Ke Waqiat
مَیں ایک منٹ خاموش رہا۔پھر مَیں نے اس سے پوچھا: کیا تم عبداللہ کے بیٹے ہو؟ اس نے کہا:جی ہاں۔مَیں پھر ایک منٹ خاموش رہا، پھر پوچھا: کیا تم عبداللہ ہی کے بیٹے ہو؟میرے اس سوال پر وہ بھڑک اُٹھا اور چِلّا کر کہا: کیا آپ بار بار مجھ سے یہی سوال کرتے رہیں گے؟ ہاں مَیں عبد اللہ ہی کا بیٹا ہوں۔ مَیں چُپ رہا۔جب اس کا غصہ بہت تیز ہوگیا تو مَیں نے کہا: مَیں نہیں مانتا کہ تم عبداللہ کے بیٹے ہو۔ تمہارے پاس کون سا ایسا ثبوت ہے کہ تم عبداللہ کے بیٹے ہو ؟ جب تک تم اس کا ثبوت نہیں پیش کروگے مَیں ہر گز ہرگز تم کو عبداللہ کا بیٹا نہیں مان سکتا ۔یہ سن کر وہ خاموش ہوگیا ۔اب مَیں نے کہا: بولتے کیوں نہیں ؟ کیا ثبوت ہے کہ تم عبداللہ کے بیٹے ہو؟ پھر بھی وہ چپ رہا مگر اس کا چہر ہ اتر گیا۔ مَیں نے جب محسوس کر لیا کہ یہ اب لاجواب ہوچکا ہے تو مَیں نے خود اس سے کہا : بھائی ! اس کے سوا تمہارے پاس اور کیا ثبوت ہے کہ تمہاری ماں نے یہ بتایا ہے کہ تم عبداللہ ہی کے بیٹے ہو؟تمہاری ماں کے سوا تمہارے عبداللہ کا بیٹا ہونے پر دنیا بھر میں نہ کوئی گواہ ہے نہ کوئی ثبوت مگر تم محض اپنی ماں کے کہنے پر عبداللہ کے باپ ہونے کا اتنا پکا یقین رکھتے ہو کہ خانہ کعبہ کے اندر سر پر قرآن رکھ کر بھی تم یہی کہو گے کہ مَیں عبداللہ کا بیٹاہوں ۔تو عزیز ِمَن!فقط ایک عورت کے کہہ دینے سے تم نے مان لیا اور یقین کرلیا کہ تمہارا باپ عبداللہ ہے تو آج سینکڑوں برس سے ہزاروں ،لاکھوں انسان یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ یہ مُوئے مبارک حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے بال شریف ہیں تو اگر ہم لوگ اس بات کا یقین کرلیں تو اس میں اعتراض کی کیا گنجائش ہے؟
میری یہ جذبات سے بھری ہوئی گفتگو سن کر وہ اس قدر متاثر(Impress) ہوا کہ