Book Name:Teen Psandida Sifat

بندے کا دل ہو جاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ، سمجھتا ہے ، وَ لِسَانَہُ الَّذِیْ یَتَکَلَّمُ بِہٖ اور میں اس بندےکی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے ، اِنْ دَعَانِیْ اَجَبْتُہٗ اگر وہ بندہ مجھ سے دُعا کرے تو میں اس کی دُعا پُوری کرتا ہوں ، وَاِنْ سَاَلَنِیْ اَعْطَیْتُہٗ اور اگر میرا محبوب بندہ مجھ سے کسی چیز کا سُوال کرے تو میں اسے عطا فرماتا ہوں۔ ([1])

اے عاشقان رسول !  اس حدیثِ پاک کے مطابق اللہ پاک کا بندے کے کان ، آنکھ ، زبان ، ہاتھ ، پاؤں ، دِل اور زبان بن جانے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مَعَاذَ اللہ! اللہ پاک بندے میں سرایت کر جاتا ہے ، نہیں ، نہیں ، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ حدیثِ پاک کا ایک مطلب جو عُلَما نے بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ جب اللہ پاک بندے سے محبت فرماتا ہے تو اسے اپنے قرب سے نواز دیتا ہے ، یہاں تک کہ بندہ “ فَنَافِی اللہ “ کے درجے تک پہنچ جاتا ہے ، پھر اس کے اعضاء میں خدائی طاقتیں آ جاتی ہیں ، اور وہ ایسے کام کر لیتا ہے جن تک عقل کی رسائی نہیں ہوتی ، وہ بندہ صِفَاتِ الٰہی کا مظہر ہو جاتا ہے ،  اب اُس کی یہ شان ہوتی ہے کہ *وہ دیکھتا تو اپنی ہی آنکھ سے ہے مگر اُس کی آنکھ میں نورِ الٰہی جلوہ گر ہوتا ہے ، لہٰذا وہ نزدیک کو بھی دیکھتا ہے ، دُور کو بھی دیکھتا ہے ، ظاہِر کو بھی دیکھتا ہے ، پوشیدہ کو بھی دیکھتا ہے ، *بندہ سنتا تو اپنے کان ہی سے ہے مگر اس کا سننا اللہ پاک کی صِفَّتِ “ سَمِیْع “  کا مظہر ہو جاتا ہے ، اس کی سماعت خُدائی طاقت کا مظہر ہوجاتی ہے ، لہٰذا وہ دور کا بھی سنتا ہے ، نزدیک کا بھی سنتا ہے ، *اسی طرح وہ پکڑتا اپنے ہاتھ ہی سے ہے مگر اس کا پکڑنا اللہ پاک کی صفّتِ “ بَطْش (یعنی گرفت فرمانے کی صِفَّت) “ کا مظہر ہوتا ہے ،  *وہ چلتا اپنے ہی پاؤں سے ہے مگر اس کے


 

 



[1]...موسُوعہ اِبْنِ ابی دُنیا ، رسالہ : الاَوْلیاء ، جلد : 2 ، صفحہ : 399 ، حدیث : 45۔