Sulah Kay Fazail

Book Name:Sulah Kay Fazail

تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰)  ( پ۲۶ ، الحجرات  : ۱۰ )

سے ڈروتا کہ تم پر رَحمت ہو۔

اسی طرح اَحادیثِ مُبارکہ میں بھی صُلْحُ کروانے کے کئی فَضائل بیان ہوئے ہیں ۔ چُنانچہ

روزہ ، نماز اور صدقہ سے اَفضل عمل

رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا : کیا میں تمہیں روزہ ، نماز اور صدقہ سے اَفضل عمل نہ بتاؤں؟صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی : یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! ضرور بتائیے۔ اِرشاد فرمایا : وہ عمل آپس میں رُوٹھنے والوں میں صُلْحُ کرا دینا ہے کیونکہ رُوٹھنے والوں میں ہونے والا فساد بھلائی کو  کاٹ دیتا ہے ۔ ([1])

یاد رہے !مسلمانوں  میں  وہی صُلْح کرنا اور کروانا جائز ہے جو شریعت کے دائرے میں  ہو جبکہ ایسی صُلْحُ جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ جائز نہیں  ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ  عَنْہُ سے روایت ہے : رسولِ اکرم  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں  کے درمیان صُلْح کروانا جائز ہے مگر وہ صُلْح (جائز نہیں ) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔ ([2])

                             آئیے! اس طرح کی صلح کی چند مثالیں سُنتے ہیں : مثلاًمیاں بیوی میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن کے پاس نہ جائے گا۔ ایسی صُلْحُ کروانادُرست نہیں۔ مقروض مسلمان سُود اپنے قرض خواہ کو دے گا(ایسی صُلْحُ


 

 



[1] ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی اصلاح  ذات البین ، ۴ / ۳۶۵ ، حدیث : ۴۹۱۹

[2] ابوداؤد ، کتاب الاقضیۃ ، باب فی الصلح ، ۳ / ۴۲۵ ، حدیث : ۳۵۹۴