Book Name:Yamni Sahabi Ki Riqqat Angaiz Hikayat

دیتے ہو تو مال تمہارا ہو جاتا ہے۔ یعنی جب تک مال ہمارے پاس ہے ، مال ہمارا نہیں ہے ، ہم مال کے ہیں ، ہم مال کی حفاظت کرتے ہیں ، ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے ، جیب میں بھاری رقم ہو تو سڑک سے گزرتے ہوئے ڈر لگ رہا ہوتا ہے ، وسوسے آرہے ہوتے ہیں کہ ابھی یہاں سے کوئی  ڈاکو نہ آ جائےیا کوئی جیب کترا  جیب نہ کاٹ لے ، گھر میں مال رکھا ہو تو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے ، گرِل (Grill) لگوا دی جائے ، مضبوط تالا ہو ، تجوری بہترین ہو ، سیکیورٹی گارڈ کھڑے کر دئیے جائیں ، گھر میں مال ودولت رکھی ہے کہیں چور نہ آجائیں ، مگر  جب ہم مال خرچ کر دیتے ہیں ، راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کر دیتے ہیں تو وہ مال ہمارا ہو جاتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جو راہِ خدا میں خرچ کیا جائے وہ صِرْف محفوظ نہیں ہوتا ، بڑھتا بھی ہے ، پارہ 2 ، سُوْرَۂ بَقَرَہ ، آیت : 245 میں ارشاد ہوتا ہے :

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-

ترجمہ کنز الایمان : ہے کوئی جو اللہ کو قرضِ حسن دے تو اللہ اس کے لئے بہت گُنا بڑھا دے۔

سُبْحٰنَ اللہ !کیسی پیاری بات ہے! مال دیا ہوا کس کا ہے؟  اللہ پاک کا۔ سرکار غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : اَنْتُمْ وُکَلَاءُ عَلٰی ہٰذِہِ الْاَمْوَال تم اس مال کے وکیل ہو۔ ([1])

 مثال کے طور پر ہم کسی کو 200  روپیہ دیں اور کہیں کہ بازار سے فلاں چیز لے آؤ! تو وہ شخص جسے ہم نے پیسے دیئے ، یہ 200 کا مالک نہیں ہے ، وکیل ہے ، وہی چیز لا سکتا ہے جو ہم نے کہی ہے ، اسی طرح ہم سب اس دُنیا میں مال و دولت کے مالِک نہیں بلکہ وکیل ہیں ، اَصْل مالک اللہ پاک ہے ، وکیل سے جو مال واپَس لیا جاتا ہے وہ قرضہ نہیں ہوتا ، وہ تو مالک کی چیز ہوتی ہے جو اسے واپس لوٹائی جاتی ہے مگر اللہ پاک کی عنایت ، اس کی رحمت اور ذَرَّہ


 

 



[1]...جَلَاء الخَوَاطِرْ ، مجلس : حقوق الفقراء ، صفحہ : 110۔