Book Name:Karamat e AalaHazrat

علمی و روحانی شخصیت تھے ۔ آپ کا کشتی میں سُوَار مسافروں کی فریاد سُن کراُن کی مدد کرنا اور کشتی کو کنارے لگا دینا یقیناً آپ  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ    کی کرامت ہےاور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ پاک نے اپنے اولیاء کو یہ بلند و بالا شان عطا فرمائی ہے کہ جب بھی کسی مشکل میں اُن کو پکارا جائےیا اُن کے وسیلے سے دُعا مانگی جائے تو وہ اللہ پاک کی عطا سے  اپنے غلاموں کی مشکل کُشائی بھی  فرماتے ہیں اور حاجت روائی بھی فرماتے ہیں۔

  پیارے اسلامی بھائیو! کراماتِ اولیاء حق ہیں۔ چنانچہ امیرِ اہلسنت ، بانِیِ دَعْوَتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابوبِلال محمد الیاس عطّار قادِری رضوی  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  فرماتے ہیں : زمانۂ نبوّت سے آج تک کبھی بھی اس مسئلے میں اہلِ حق کے درمیان اِخْتِلاف نہیں ہوا ، سبھی کا متفقہ عقیدہ ہے کہ صحابۂ کِرَام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور اولیائے عِظَام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہم کی کرامتیں حق ہیں اور ہر زمانے میں اللہ والوں کی کرامتیں ظاہر ہوتی رہی ہیں اور اِنْ شَآءَ اللہ قیامت تک کبھی بھی اس کا سلسلہ ختم  نہیں ہو گا بلکہ ہمیشہ اَوْلِیَاءُ الله رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہم سے کرامات واقع اورظاہِر ہوتی رہیں گی۔ [1]    کیونکہ کرامات  کا ذکر توقرآن پاک میں بھی ملتاہے جیسا کہ حضرتِ مریم  رَضِیَ اللہ عَنْہُا کےپاس بے موسم کےپھل  کاآنا آپ کی کرامت ہے۔ قرآن پاک میں ہے ۔

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ

ترجمۂ کنزالایمان : جب زکریااس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے ، کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیابولیں وہ اللہ کے


 

 



[1]    کراماتِ فاروقِ اعظم ، ص۸