Book Name:Nekiyan Chupayye

سے اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوسکیں چُنانچہ

ریا کاری یہ ہے کہ اللہ پاک کی رِضا کے علاوہ کسی اور اِرادے سے عبادت کرنا۔ گویا عبادت سے یہ غَرَض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک سمجھیں یا اسے عزّت وغیرہ دیں۔([1])

ریاکاری کی مَذمَّت پر 2 فرامینِ الٰہی

       ریا کاری کا شُمار ان گناہوں میں ہوتا ہے جن کی مَذمَّت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔آئیے!ریا کاری کی مَذمَّت پر 2 فرامینِ الٰہی سنئے،چُنانچہ

       پارہ 16سُوْرَۃُ الْکَہْف کی آیت نمبر110 میں ارشادِ رَحْمٰن ہے:

فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰) (پ۱۶، الکھف:۱۱۰)

تَرجَمۂ کنزُ  الایمان: تو جسے اپنے رَبّ سے ملنے کی اُمّید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رَبّ کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔

       حضرت کثیر بِن زِیاد رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ سے اِس آیت کا مطلب پوچھا تو فرمایا: یہ مومن کے بارے میں نازِل ہوئی۔ میں نے کہا:کیا وہ اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے؟   فرمایا:نہیں،  لیکن عمل میں شِرک کرتا ہے کیونکہ وہ اس عمل سے اللہ پاک اور لوگوں کی رِضا چاہتا ہے۔اس وجہ سے وہ عمل قبول نہیں ہوتا۔([2])


 

 



[1]الزواجر،الباب الاول فی الکبائر الباطنیةالخ ،الکبیرة الثانیة الشرک الاصغرالخ ،۱ /۸۶

[2] تفسير درمنثور، پ۱۶، الکھف، تحت الآیة : ۱۱۰، ۵  /  ۴۷۰