Book Name:Payare Aqaa Ki Payari Adaain

(وسائلِ بخشش مرمَّم،ص۶۴۶- ۶۴۸)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

پیارے آقا کا پیارا کلام

       پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے گفتگو کرتےہیں، اپنی مرضی سے کلام کرتےہیں،  مگر ہمارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان یہ ہے کہ آپ کلام اس وقت فرماتے تھے جب وحیِ الٰہی ہوتی تھی۔ چنانچہ پارہ27سُوْرَۃُ النَّجْم آیت نمبر 3اور 4 میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) (پ۲۷، النجم: ۳، ۴)    

تَرجمۂ کنزالایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے

ان آیات کا شانِ نزول یوں ہے کہ غیر مسلم یہ کہتے تھے کہ قرآن،اللہ پاک کا کلام نہیں  بلکہ محمد (صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے اسے اپنی طرف سے بنا لیا ہے،اس کا رد کرتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ میرے حبیب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کلام تمہارے پاس لے کر آئے ہیں ، اس کی کوئی بات وہ اپنی طرف سے نہیں  کہتے بلکہ اس قرآن کی ہر بات وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں  اللہ پاک کی طرف سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے کی جاتی ہے۔([1])

جبکہ حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیہ فرماتے ہیں : اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نبی اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں فرماتےجو کچھ فرماتے ہیں وہ ربّ کی وحی ہوتی ہے، اس کے دو مطلب


 

 



[1] تفسیر صراط الجنان،پ۲۷، النجم، تحت الآیۃ۳، ۹/۵۴۷