Book Name:Islam Aik Zabita-e-Hayat He

وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پارہ:۴، النساء:۱)             

تَرْجَمَۂ کنزالعرفان:اور اللہ سے ڈرو جس کے نام اجَمَۂ کنزالایمہا:جی ہاں،آپ  پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں (کو توڑنےسے بچو)بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

تفسیرِ نعیمی میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھا ہے:مُسَلمانوں پر جیسے نماز،روزہ، حج،زکوٰۃ وغیرہ ضروری ہے،ایسے ہی اپنے قَرابت(رشتے)داروں کے حق اَدا کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔مزید اِرشاد فرماتےہیں:اپنے عزیزوں،قریبوں پراچھا سُلُوک بہت ہی مُفید ہے،دُنیا میں بھی،آخرت میں بھی، اس سے زِندگی، موت، آخرت سب سنبھل جاتی ہے۔(تفسیرِ نعیمی ،۴/۴۵۶-۴۵۵ملتقطاً)

یادرکھئے:دادا،دادی،نانا،نانی،چچا،پھوپھی،ماموں،خالہ وغیرہ کے بھی کچھ حقوق ہیں۔

مکتبۃ المدینہ کی کتاب”بہشت کی کنجیاں“کے صفحہ نمبر 197پر لکھا ہے:رشتوں کو کاٹنا حرام اور جَہَنَّم میں لے جانے والا کام ہے،لہٰذا ہر مُسَلمان  کو ہمیشہ اِس کا خیال رکھنا چاہیے کہ کسی رشتے دار سے تَعَلُّق نہ کاٹے بلکہ ہمیشہ اِس کو شش میں لگا رہے کہ رشتے داروں سے تَعَلُّق(Relation) قائم رہے اور کبھی بھی رشتہ کٹنے نہ پائے۔بعض لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ جو رشتے دار ہم سے تَعَلُّق رکھے گا، ہم بھی اُس سے تَعَلُّق رکھیں گے اور جو ہم سے کٹ جائے گا،ہم بھی اُس سے کٹ جائیں گے،یہ کہنا اور یہ طریقہ بھی اِسلام کے خِلاف ہے۔(مزید فرماتے ہیں:)رشتے داروں کے ساتھ تَعَلُّق کاٹ دینے کی ایک ہی صُورت جائز ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے مُعامَلے میں تَعَلُّق کاٹ دیا جائے،مثلاً کوئی رشتے داراگرچہ کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو،اگر وہ مُرْتَد(یعنی اسلام سے پھرجائے)یا گمراہ وبددِین ہوجائے تو پھر اُس سے تَعَلُّق کاٹ لینا واجب ہےیا کوئی رشتہ دار کسی گُناہِ کبیرہ میں گرِفتار ہے اور منع کرنے پر بھی باز نہیں آتابلکہ اپنے گُناہِ کبیرہ پرضِدکرکے اَڑا ہواہے تواُس سے بھی قطعِ تَعَلُّق کرلینا(رشتہ کاٹنا)ضروری ہے،کیونکہ اُس کے ساتھ تَعَلُّق رکھنا اور تَعاوُن کرنا گویا اُس کے گُناہِ کبیرہ میں شرکت کرنا ہے اور یہ ہر