Book Name:Fikr-e-Akhirat

  رُک گئیں  اور ہم موت کے گھاٹ اُترگئیں   تو پھر سوائے پچھتانے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ،اپنے دل ودماغ  سے یہ خوش فہمی نکال دیجئے کہ ابھی تو میری  عمر ہی کیا ہے؟ ابھی تو لمبی  زندگی پڑی ہے،بڑھاپے میں نیکیاں کرلوں گی۔ یادرکھئے! موت صرف بڑھاپے یا بیماری میں ہی نہیں آتی بلکہ اچھی بھلی صحت مند ہنستی کھیلتی نوجوان اسلامی بہنیں بھی اچانک موت کا شکار ہو کر اندھیری قبر میں چلی جاتی ہیں۔ اس دنیا کی حیثیت ایک راستے کی طرح ہے، جسے طے کرنے کے بعد ہی ہم منزل تک پہنچ سکتی ہیں ، اب وہ منزل جنّت ہوگی یادوزخ! اِس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم نے یہ سفر کس طرح طے کیا! اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبردار بن کر یا نافرمان بن کر؟ افسوس  ہے اُس پر جو دنیا کی رنگینیاں دیکھنے کے باوُجُودبھی اس کے دھوکے میں مُبْتَلا رہے اور موت سے بالکل غافِل ہوجائے۔یاد رکھئے!جو انسان دُنیوی نعمتوں    سے دل لگاتا ہے وہ اپنی آخرت کے بارے میں غفلت کا شِکار ہوجاتا ہے،غفلت انسان کو گناہوں پر بہادر کردیتی ہے ،غفلت انسان کو نیکیوں سے دُور کردیتی ہے،غفلت ربِّ کریم کی ناراضی کا سبب بنتی ہے،اللہ  پاک نے ہمیں دنیا میں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، عالیشان مکان  اور اس میں ڈھیروں سہولیات نعمت ہیں،ماں باپ کیلئے اولاد بھی نعمت ہے،مگر یاد رکھئے!کسی بھی دنیاوی نعمت میں ضرورت سے زیادہ مشغولیت غفلت اور نُقصان  کا  سبب  ہے،جیساکہ

       پارہ 28سُوْرَۃُ الْمُنَافِقُوْن کی آیت نمبر 9 میں ارشادِباری ہے :