Book Name:Jald Bazi Kay Nuqsanat

آرہی ہے ۔لوگ جب آپس میں ملتے ہیں تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ سے ابتدا کرنے کے بجائے”آداب عرض“ کیا حال ہے ؟”مزاج شریف“ ”گڈ مارننگ “،”گڈ نائٹ “وغیرہ وغیرہ کلمات سے ابتدا کرتے ہیں، یوں ہی بعض لوگ ہاتھ کے اشاروں اور کلائیوں سے سلام کرتے اور اسی طرح سلام کا جواب دینے میں سستی کی جاتی ہے،یہ سب خلافِ سُنّت ہے۔بعض لوگوں کی بےباکی کا یہ عالَم ہے کہ وہ ملاقات کے وَقْت سلام کرنے کے بجائے مَعاذاللہ گالی سے کلام کا آغاز کرتے ہیں، جیسا کہ اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلیْہِ ارشاد فرماتے ہیں:میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا سلام کی جگہ (لوگوں کو) گالی بکتے ہوئے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص۴۵۰)اے کاش!ہر اسلامی بہن سلام کی اہمیت کو سمجھ جائے اور ایک بار پھر یہ سُنّت عام  ہوجائے۔سلام کی عظیم سنت سے متعلق مزید معلومات  کے لئے امیر اہلسنت کا رسالہ101مدنی پھول اور مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“کا مطالعہ فرمائیے۔

(2)دوسرا نکتہ یہ ملا کہ اگر کوئی ہمیں ہمارے عیبوں سے آگاہ کرے،ہماری کوئی کمزوری بیان کرے، ہماری اصلاح کرے تو ہمیں غصّے میں آنے اور اپنی ہٹ دھرمی پر اَڑجانےکے بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے، افسوس!حالات بہت زیادہ نازک ہوتے جارہے ہیں،اگر کوئی  اسلامی بہن کسی کو اس کے عیب بتائے یا نصیحت کردے تو اس بیچاری کی شامت آجاتی ہے ،اس پر طعن و تشنیع کےتیر برسائے جاتے ہیں،مثلاً جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے آئی بڑی نصیحت کرنے والی ،چار کتابیں کیا پڑھ لیں اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھ بیٹھی ہو،پہلے اپنے آپ کو تو نیک بنالو پھر ہمیں کہنا،بس بس ہمیں سب پتا ہے ہمیں  مت سمجھایا کرو،وغیرہ۔

لہٰذااگر کوئی اسلامی بہن ہمیں ہمارے عیوب بتائے،ہمیں نصیحت کرے اور اچھی نِیَّت سے ہماری اصلاح کرے تو ہمیں اس کو اپنا دشمن(Enemy) نہیں بلکہ خیر خواہ سمجھتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کرنا