Book Name:Mout Ki Talkhi Aur Karwahat

     پىارے پىارے اسلامى بھائىو!ہم موت کی تلخی کے بارے میں سُن رہے تھے، یقیناً گناہوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب اور بُری صحبتوں نے ہمیں فکرِ آخرت  اور فکرِ موت سے بہت دُور کردیا ہے، ہمارے بزرگوں کایہ طریقہ تھا کہ وہ پاکیزہ لوگ کثرت سے موت کو یاد کرتے تھے، ہمیں بھی موت کو یاد کرنے کی عادت بنانی چاہیے۔ بعض بزرگوں کے بارے میں تو منقول ہے کہ جب ان کے سامنے موت اور قبر و آخرت کی بات کی جاتی تو ان کی حالت غیر ہوجاتی، کسی کا جسم سُن پڑ جاتا تو کسی کے آنسوؤں کی لڑی بن جاتی، کوئی آہ و زاری میں مصروف ہو جاتا تو کوئی خوف سے بے قرار ہوجاتا ۔

اے عاشقانِ رسول!غورکیجئے!جن بزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے واقعات ہم نے سُنے،یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کے دن رات گناہوں سے بچ کر اللہ پاک کی عبادت میں گزرتے تھے، یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی زبان فضول گوئی سے بچ کر اللہ پاک کاذِکر کرتی تھی، یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی آنکھیں اللہ پاک کے خوف سے جُھکی رہتی تھیں،جبکہ ہماراحال اس کے بالکل اُلٹ ہے،ہم توہنس ہنس کرگناہ کررہے ہوتے ہیں اورندامت و شرمندگی بھی نہیں ہوتی،ہمارابنے گاکیا؟ہمارے دِل کی سختی کس قدربڑھ چکی ہے کہ موت کا تذکرہ اچھا نہیں لگتا،کوئی موت اورآخرت کی تیاری کی بات کرے تودِل اُکتانے لگتاہے،ذہن کوئی نصیحت کی بات قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتا،اے کاش! ہم بھی اپنے بزرگوں کی طرح موت اور قبر کے خوف سے بے قرار رہنے والے بن جائیں۔اس میں شک نہیں کہ موت کی سختیاں بے پناہ ہیں، لیکن اُس وَقْت اگر کَرَ م ہوجائے اور پیارے آقا،حبیبِ کبریا،میٹھے میٹھے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی جَلْوہ گری ہوجائے تو اِنْ شَآءَاللہ مَوْت کی تمام سَخْتِیاں آسان ہو جائیں، حضرت علامہ مُفتی اَحمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مِرآۃُ الْمناجیح میں لکھتے ہیں : ”عُلَماء فرماتے ہیں کہ اب بھی حُضُورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَاپنے خاص خُدَّام کو اُن کے مرتے وقت کَلِمہ پڑھانے تَشْرِیْف