Book Name:Lalach Ka Anjaam

کروا دیتا ہے،کبھی یہ مزید اچّھی نوکری کے چکر میں لگی بندھی نوکری(Job) سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،کبھی راتوں رات امیر و کبیر بننے کا لالچ اِسے لے ڈُوبتا ہے،دَولت کا لالچ کبھی اِسے مُختلِف  مُقَدَّمات میں پَھنسوادیتا ہے،کبھی یہ عُہدہ ومَنْصَب کے لالچ میں مُبْتَلا ہوکر رِشوت کے لین دین کے گناہ میں جاپڑتا ہے مگر جب آنکھ کُھلتی ہے تو اِسے اپنے کئےپر بہت سخت پچھتاوا ہوتا ہے لیکن’’اب پچھتائے کیا ہُوَت جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت۔“آئیے!ایسے ہی ایک بیوقوف اور لالچی شخص کا واقعہ سُنتے ہیں جسے عزّت کی دال روٹی  نصیب تھی مگر اچّھا کھانے کی حرْص نے اُسے ایک مالدار دوست کے تلوے چاٹنے پر مجبور کردِیا،جس کی وجہ سے نہ صرف اُس کی عزّت خراب ہوگئی بلکہ اُسے ذِلّت و رُسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑا ،چنانچہ

دَولت کےلالچ میں دوستی کرنے کا اَنجام

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی کتابحِرْصکے صَفْحہ نمبر218 پر لکھا ہے: ایک غریب آدَمی کے3 بیٹے تھے،جو کچھ اُسے دال روٹی نصیب ہوتی خُود بھی کھاتا اور اُنہیں بھی کھلاتا۔ اُن میں سے ایک بیٹا باپ کی غُربت اور دال روٹی سے خوش نہیں تھا چُنانچہ اُس نے ایک مالدار  نوجوان سے دوستی کرلی اور اچّھا کھانا ملنے کے لالچ میں اُس کے گھر آنے جانے لگا۔ایک دن اُن کے درمیان کسی بات پر ناراضی ہوگئی۔مالدار دوست نے اپنی اَمِیْری کے غُرُور میں اُسے خُوب مارا پیٹا اور اُس کے دانت توڑ ڈالے۔تب وہ غریب دل ہی دل میں تَوبہ کرتے ہوئے کہنے لگا:میرے باپ کی پیار سے دی ہوئی دال روٹی اِس مار دھاڑ اور ذِلّت کے نِوَالے سے بہتر ہے،اگر میں اچّھے کھانے پینے کی لالچ نہ کرتا تو آج اِتنی مار نہ کھاتا اور میرے دانت نہیں ٹُوٹتے۔(حرص،ص۲۱۸)