Book Name:Shuhada-e-Ohud ki Qurbaniyan

سرداروں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا،سرداروں نے سختی کی مگر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ گھبرائے نہیں بلکہ حکمتِ عملی کا سہارا لیتے ہوئے آیاتِ قرآنیہ سُنا سُنا کر جلد ہی انہیں اسلام کی طرف مائل کرلیا،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے میٹھے بول کی برکت سےان کےدل نرم پڑگئے،چنانچہ وہ اپنے پورے قبیلے سمیت مسلمان ہوگئے۔

مُبَلّغہ کو کیسا ہونا چاہئے؟            

       اس واقعے سے جہاں ہمیں حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَبْ بن عُمَیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی دین کی خاطرقربانی کا پتا چلا وہیں یہ اہم ترین مدنی پھول بھی چننے کو ملا کہ نرمی،بُردباری،صبر،قوتِ برداشت،ملنساری،خوش اخلاقی اور جذبات پر قابو رکھنے جیسی خوبیوں والی  ہونا ایک کامیاب مُبَلّغہ کے لئے بے حد ضروری ہے۔سختی، غصہ اور بداخلاقی سے پیش آنے وا لی ، ابے تبے اور بازاری لہجے وا لی ،فضول بولنے وا لی، جھاڑپلانے والی،مذاق مسخریاں کرنے وا لی ،کِھل کِھلاکر ہنسنے وا لی ،بحث و تکرار کرنے وا لی  ،اپنے موقف پر اَڑجانے وا لی  ،مَدَنی مرکز کی اطاعت نہ کرنے وا لی  ، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والی مُبَلّغہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ، ایسی مُبَلّغہ خود بھی ہلاکت میں جاپڑے گی اورعاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کے لئے بھی اچھا نہیں ہوگا۔یاد رکھئے!جو کام”نرمی “سے ہوتا ہے وہ”گرمی (Anger)سے نہیں ہوتا،لہٰذا چاہے کوئی کتنا ہی دل دکھائے،سختی سے پیش آئے،مذاق اُڑائے اور دھمکیاں دے تب بھی  مُبَلّغہ کو  نرمی،ملنساری، صبر، شفقت، خاموشی اور حکمتِ عملی  سے ہی کام لینا چاہئے،جیسا کہ

       حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نَقل فرماتے ہیں:کسی بُزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کا مَدَنی پھول عنایت کرتے ہوئے فرمایا:نیکی کی دعوت دینے والے کو چاہئے کہ اپنے آپ کو صَبْر کا عادی بنائے اور اللہ کریم کی طرف سے نیکی کی دعوت کے ملنے والے ثواب پر یقین رکھے۔جس کو ثواب کا کامِل یقین