Book Name:Shuhada-e-Ohud ki Qurbaniyan

حضرتِ سَیِّدُنا عُرْوَ ہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مَرْوِی ہے کہ جب اَنصار بَـیْعَتِ عَقَبۂ اُولی کے بعدآئندہ سال مَوسَمِ حج میں ملنے کا وعدہ کر کے اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے  ۔ تو واپَس پہنچ کر اُنہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف پیغام(Message)  بھیجا کہ ہمارے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجیں ، جو لوگوں کو قرآنِ پاک پڑھائے ۔چنانچہ رسولِ انور،آمنہ کے دلبر صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبیلۂ بَنِی عَبْدُ الدَّار سے تعلُّق رکھنے والے حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَب بِنْ عُمَیْر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ان کے پاس بھیجا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے قبیلۂ بنی غَنَم کے حضرتِ سَیِّدُنا اَسْعَد بِن زُرارہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ہاں قِیام فرمایا اور لوگوں کو قرآنِ پاک پڑھانے لگے  ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ دیگر لوگوں کے پاس جا کر انہیں اِسْلَام کی دَعْوَت بھی دیا کرتے ، یہاں تک کہ انصار کے اکثر گھرانے اور سردار و شُرَفا اِسْلَام لے آئے۔پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ واپَس بارگاہِ رِسَالَت میں لوٹ گئے۔(حلية الاولياء،مصعب بن عمیر الداری،۱/۱۵۲،رقم:۳۳۹)اور قاری کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ( معجم کبیر،۲۰/۳۶۴،حدیث:۸۴۹)

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہوجائے                           تلاوت کرنا صبح و شام میرا کام ہو جائے        

پیاری پیاری اسلامی بہنو! سُبْحٰنَ اللہ!سنا آپ نے!شہیدِ اُحد حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَبْ بن عُمَیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کس قدر خوش نصیب صحابی ہیں کہ جنہیں سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لوگوں کو  قرآنِ کریم سکھانے کے لئے منتخب فرمایا،سفر اگرچہ لمبا  تھا مگر چونکہ حکمِ رسول تھا لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمانِ رسول پر لبیک کہتے ہوئے اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر لوگوں کو فیضانِ قرآن سے فیض یاب فرمایا حتّٰی کہ اپنے زمانے میں قاری مشہور ہوگئے۔حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَبْ بن عُمَیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے کردار کو سامنےرکھتے ہوئے ہم میں سےہر ایک  اپنا احتساب کرے اور سوچے کہ  میرے اندر دین کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ کس قدر بیدار ہے؟غور کیجئے!یہ حضرات تو انتہائی کم وسائل