Book Name:Faizan-e-Ashaab-e-Suffa

ان کی دولت کو دیکھ دیکھ کر دل جلانے اور حسد کی آفت میں مبتلا ہونے سے بچے اور بے صبری و ناشکری سے دُور رہے،ہرحال میں اللہ پاک کا شکرگزاربندہ بن کررہے،مصیبت و پریشانی کے وقت صبرکامظاہرہ کرے تو ایسا شخص یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ یادرہے کہ غربت  کا جو غم ناشکری ، نا اُمیدی، نافرمانی، سرکشی کی طرف لے کے جارہا ہو،وہ ہلاکت میں ڈالنے والا ہے اور اس کا علاج ضروری ہے۔ ایسے غریب کو اصحابِ صفہ کے حالات سے درس حاصل کرنا چاہیے ، غربت کے فضائل کو جاننا چاہیے اور جو اس کے لیے مقّرر ہے، اس پرراضی رہ کر اللہ پاک کا شکر گزار بندہ بننا چاہیے۔

یاد رکھئے! کبھی کبھی غربت اور مصیبت آزمائش بھی بن کر آتی ہے تو وہ لوگ جو غربت و مصیبت پر صابر و شاکر رہنے کےبجائے  ان پر کُڑھتے رہیں،بے صبری کا مظاہرہ کریں،  شکوہ شکایت کریں اور حرام طریقے سے غُربت و مصیبت کو دُور کرنے کی کوشش کریں انہیں ڈر جانا چاہیے کہ ان کے گِلے شکوے، بے صبری، اور غربت و مصیبت کو حرام ذرائع سے ختم کرنے کی کوشش آخرت کی تباہی کا سبب نہ بن جائے۔  جبکہ مصیبت پر صبر کرنا بہت بڑے اجروثواب اور درجات کی بلندی کا باعث ہے۔  

حضرت سَیِّدُنا محدّث ابنِ جوزی  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:محتاجی ایک مرض کی مانند ہے،جو اس میں مبتلا ہوااور صبر کیا وہ اس کااجر و ثواب پائے گا، اسی لیے محتاج و غریب لوگ جنہوں نےاپنےفقرو غربت پر صبر کیا ہوگا، امیروں سے 500 سال پہلے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (تلبیس ابلیس، ص۲۲۵) 

حدیثِ قدسی ہے،اللہ پاک فرماتا ہے:”جب میں اپنے بندوں میں سے کسی مومن بند ے کو مصیبت میں مبتلا کروں اور وہ اس مصیبت پر میرا شکر ادا کرے تو (اے فرشتو)اس کیلئے وہی اجر لکھاکرو جو تم اس کی تندرستی کی حالت میں لکھا کرتے تھے۔“(التر غیب والتر ھیب ،کتاب الجنائز ،باب التر غیب فی الصبر،رقم ۵۳ ،ج۴ ،ص ۱۴۸)