Book Name:Ambiya-e-Kiraam Ki Naiki Ki Dawat

حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ دوڑ دوڑ کرحُضُورپُر نورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرآنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اورحُضُورِ انور،شافعِ محشر صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بچاتے تھے،یہاں تک کہ وہ بھی خُون میں نہا گئے اور زَخْموں سے نڈھال ہوگئے۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَنگور کے ایک باغ میں پناہ لی۔(المواہب اللدنیہ ، ھجرتہ صلی  اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۱۳۶،۱۳۷)

جنگ ِاُحد سے بھی سخت دن

اس سفر کےطویل عرصے بعد ایک مرتبہ اُمُّ الْمُومِنِیْن حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہرَضِیَ اللہُ عَنْہَانے حُضُورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کِیا کہ یارَسُولَاللہ! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا جنگِ اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشادفرمایا کہ ہاں اے عائشہ! وہ دن میرے لئے جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا، جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار ”اِبْنِِ عَبْدِ یَالِیْل“ کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دعوت ِاسلام کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور اہلِ طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا۔ میں اس رنج و غم میں سرجھکائے چلتا رہا،یہاں تک کہ مقام ’’قَرْنُ الثَّعالِب‘‘میں پہنچ کر میرے ہوش و حواس بجا ہوئے ۔ وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بدلی مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے، اس بادل میں سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہپاک  نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سُن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے  تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا بیان ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ مجھے سلام کرکےعرض کرنے لگا کہ اے محمد!( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ )اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں”اَخْشَبَیْن(ابُو قُبَیْس اورقُعَیْقِعان)دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دُوں تو میں اُلٹ دیتاہوں۔ یہ سُن کر حضور رحمتِ عالَم،نورِ مجسمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جواب دیا کہ نہیں، بلکہ میں امید کرتا ہوں